قرآن مجید اور بتیس برس

قرآن مجید اور بتیس برس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’میرے رب کی کتاب ، میرے رب کا کلام‘‘۔۔۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کو چہرے پر رکھ لیتے ، زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔کتب تاریخ میں یہ قصہ نقل ہوا۔ قرآن مجید سے محبت و تعلق کے کتنے حسین مناظرچشم فلک نے دیکھے۔ قرآن کے نازل ہونے سے لے کرآج تک، ساڑھے چودہ سوسال میں لاکھوں افراد نے اس کو حفظ کیا۔ اس کے حرف حرف کوذہن نشین کیا۔ محبت کی ایک داستان اس دور میں بھی سامنے آئی ہے۔ بتیس برس کی محبت و محنت کی داستان۔ مادیت کی اس دوڑ میں جہاں بتیس سکینڈ کے اشتہار کا معاوضہ اور بجٹ لاکھوں سے تجاوز کرتا ہے،وہا ں بتیس منٹ ، بتیس گھنٹے ، بتیس ہفتے یا بتیس ماہ نہیں بلکہ بتیس برس بغیر مفاد ایک ارفع مقصد کی نذر کرنا ، یقیناًبے مثال اور لا زوال داستان ہے۔ پاکستان کی بیٹی نے سوئی دھاگے سے مکمل نسخہ قرآن مجید لکھ کر تاریخ رقم کی ہے۔ گجرات کی باکمال خاتون نے کشیدہ کاری سے کپڑے پریہ نسخہ رقم کیا۔۔۔محلہ گڑھی احمد آباد کی باسی نسیم اختر نے قرآن مجید کا یہ عظیم الشان نسخہ بتیس برس قبل لکھنا شروع کیا۔ اوراق کے لیے کاغذ کی بجائے سفید کپڑے کا انتخاب کیا گیا۔پندرہ برس قرآن مجید کے اس نسخے کی خطاطی پر صرف ہوئے۔سترہ سال میں پھر اس خطاطی کو سوئی دھاگے کے ساتھ کاڑھنے میں صرف ہوئے۔تقریبا بتیس برس کی کوشش، جدوجہد اور محنت کے بعد 2018ء میں یہ نسخہ مکمل ہوگیا۔ گھریلو خاتون ہیں۔ بچپن سے خطاطی ،سلائی اور کشیدہ کاری میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ بچیوں کو اس فن کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں۔ان کے استاد نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کی خطاطی کی سعادت اس سعادت مند خاتون کو نصیب ہوئی۔ مالک کائنات نے ان کے دل میں قرآن مجید کی محبت ڈال دی۔ اس محبت نے خدمت قرآن کی فکر بیدار کی۔یہ فکر اس عزم میں ڈھلی کہ خطاطی و کشیدہ کاری کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی خدمت سرانجام دی جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔
سوئی دھاگے کے ساتھ کپڑے پر قرآن مجید کی آیات لکھی گئی ہیں۔ کپڑا خصوصی طو رپر فیصل آباد سے منگوایا جاتا تھا۔ کشیدہ کاری کے لئے کالے اور گلابی رنگ کے دھاگے کے 84ڈبے استعمال کئے گئے ہیں۔قرآن مجید کا یہ نسخہ دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ہرجلد میں تین پارے ہیں۔سپارہ 24 صفحات پر مشتمل ہے۔آخری سپارہ 28 صفحات پر مکمل ہوا۔ نسخے کے کل صفحات 724ہیں۔ تیس سپاروں میں رموز اوقاف اور اعراب (زیر، زبر، پیش) کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جلد(صفحہ) کی چوڑا ئی15انچ اورلمبائی 22 انچ ہے۔ صفحہ کا حاشیہ گلابی اور سیاہ دھاگے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ آیات کو سیاہ رنگ کے دھاگے سے لکھا ہے۔ نسخے کا کل وزن 55کلو گرام ہے۔ یوں عزم وجزم ، محنت و محبت ، جمال و کمال کا یہ روشن اور روح پرورمظہر منصہء شہود پر آیا۔یہ باشرف خاتون قرآن مجید تہجد اور ظہر کے بعد کے اوقات میں لکھا کرتی تھیں۔دوران کتابت باوضو رہنامعمول تھا۔ روزانہ نو سے دس لفظ کاڑھتی تھیں۔ اس عمل کے ساتھ غور وفکر بھی جاری رہا۔ اسی مناسبت سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ان کا پیغام ہے کہ مسلمان قرآن مجیدمیں تدبر کریں کہ یہی اس کتاب لاریب کاتقاضا ہے۔
اس باکمال خاتون کا کہنا ہے:’’ جب میں نے قرآن مجیدکا یہ نسخہ شروع کیا تھا تو خواہش تھی کہ مدینہ کی عظیم الشان لائیبریری میں یہ نسخہ رکھا جائے تاکہ دنیا بھر کے مسلمان اس کو دیکھ پائیں‘‘۔۔۔ ان کے اس خواب کو بھی تعبیر ملی۔ اس سال بیٹے کی رفاقت میں یہ با شرف خاتون حج کے لئے حاضر ہوئیں۔ مدینہ منورہ کا رخ کیا۔قرآن مجید کا نسخہ بھی ہمراہ تھا۔ اپنے ہاتھ سے نسخہ نمائش کے لیے وقف کیا۔ 10 محرم 1440 ھ کو سادہ اور باوقار تقریب میں یہ نسخہ قرآن نمائش کی زینت بنا۔ قرآن نمائش مدینہ منورہ (معرض القرآن) کا افتتاح 2015ء میں ہوا۔ مسجد نبویؐ کے جنوبی جانب گیٹ نمبرپانچ پر واقع ہے۔ نمائش کا ہدف جدید وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن مجید کا تعارف ہے۔ اب تک اس نمائش کی زیارت کرنے والوں کی تعداد دو ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ نمائش کے بارہ ہالز کتابت سے کمپیوٹر تک کی داستان کو بیان کرتے ہیں۔ یہ نمائش جدت اورقدامت کا حسین سنگم ہے۔جہاں ساڑھے نو سو سال تک کے قدیم نسخے موجود ہیں ،وہاں 2018ء کے اس سوئی دھاگے سے کتابت شدہ نسخے کو بھی سجایاگیاہے۔ لاکھوں زائرین کی نگاہیں اس مرقع محبت کو دیکھیں گی۔ کچھ شاید پُرنم ہوں اور کچھ پُر عزم۔۔۔مگر اعتراض کرنے والے باز نہیں آتے۔ "اجی! کیا ضرورت تھی، اس قدر محنت کی اور کیا فائدہ ؟" آپ بتائیے کیا ضرورت ہے کہ لاکھوں افراد قومی ترانہ گا کرعالمی ریکارڈ قائم کریں۔ ہزاروں افراد سب سے بڑا انسانی قومی پرچم بنانے کا ریکارڈ قائم کریں۔ وطن سے محبت ان ریکارڈزکے بغیر ادھوری تو نہیں ؟ کیا ضرورت ہے آرٹ اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر اربوں روپے اڑانے کی ؟
خضر حیات مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔قرآن نمائش میں رہبری کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن مجید سے اس عالی وقار خاتون کی محبت دیکھ کر ہماری آنکھیں چھلک پڑیں۔جب حوصلہ مند خاتون نے کہا :" اللہ کی رضا کے لیے ،میں یہ نسخہ قرآن کریم مدینہ منورہ کو ہدیہ کرتی ہوں۔ اللہ مجھ سے قبول کرلے۔ یہی میری خواہش وتمنا ہے۔آج یہ قرآن کریم کا نسخہ مدینہ منورہ میں قرآن کریم نمائش میں سج گیا۔گویا میری ساری تھکاوٹ کافور ہوگئی‘‘۔یہ عالی ہمت خاتون مسلم خاتون کا حقیقی چہرہ ہے۔ بے لوث و بے غرض ہو کر اپنی صلاحیت کو مالک کائنات کے کلام کی خدمت کے لیے صرف کیا۔ پاکستان کی بیٹی کی محنت ٹھکانے لگی۔ رب العالمین کے حضور پیش کردی۔ رب العالمین قبول فرمائیں۔ کیا پاکستان کی بیٹی کی اہل پاکستان عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کریں گے؟ قرآن کی خدمت کرنے والوں کی جانب ہمارا عدم التفات ہماری ترجیحات کا مظہر ہے۔ اشتہارات پر کروڑوں خرچ کرنے والے تجارتی ادارے، عہدوں کی طلائی ریوڑیاں اپنوں کوبانٹنے والے اہل اقتدار، ریکارڈ قائم کرنے والوں کو انعامات پیش کرنے والی حکومتیں،کھیل و کھلاڑی ، فن و اداکاری پر خرچ کرنے والے امراء، برانڈ ایمبسڈرز کو مالا مال کرنے والے برانڈز، بیرون ملک ناز و ادا کی محفلوں میں ایوارڈز کو سپانسر کرنے والے کاروباری۔۔۔ ایک نظر ادھر بھی، ایک نگاہ ادھر بھی۔ کیا یہ ٹیلنٹ کی بے قدری نہیں؟ کیایہ عالی وقار خاتون تحسین و آفرین کی مستحق نہیں؟ کیا قرآن مجید اور حدیث شریف کی خدمت سرانجام دینے والوں کے لئے کسی انعام و ایوارڈکا اجراء ممکن نہیں؟

مزید :

ایڈیشن 1 -