زرداری نے این آر او کیس میں اپنے اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرادیں ، واٹر کمپنیوں نے لاہور ، شیخوپورہ بنجر کردیئے ، سپریم کورٹ، پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا نہیں کہہ سکتے، چیف جسٹس
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،آئی این پی) این آر او کیس میں سابق صدر آصف زرداری نے اپنے اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرادیں جبکہ سپریم کورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب کرلئے۔کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ فا روق نائیک صاحب پارٹی کے لوگوں کو بتائیں جج کسی سے ملے نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ جج متعصب نہیں ہوتے، اس ادارے کو طاقتور ہونے دیں، یہی آپ کا مسیحا بنے گا، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ سر اپنی پارٹی کے لوگوں کو سمجھتا ہوں، چیف جسٹس نے استفسار کیا جب این آر او ختم ہو گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلنا چاہیے تھا، درخواست گزار نے بتایا کہ نتیجہ یہی نکلنا تھا ریفرنسز دائر ہو جاتے۔سپریم کورٹ نے زیر زمین گیسوں سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے میں بدعنوانی کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تھرکول پاور پراجیکٹ منصوبے پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔اس موقع پر معروف سائنسدان اور تھر میں زیر زمین گیس نکالنے کے منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 100 میگاواٹ کا پلانٹ لگایا اور سندھ حکومت کا یہ منصوبہ 2009 میں منظور ہوا، اکتوبر 2012 میں 900 ملین فنڈ ملا اور 15۔2014 میں 100 میگاواٹ کے منصوبے بن گئے تھے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ 13 ارب 80 کروڑ روپے منصوبے پر خرچ ہوئے، یہ منصوبہ ناکام نہیں ہوا اس کی فنڈنگ روک دی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر کو کہا آپ اپنے منصوبے کی تعریف نہ کریں، ہمیں دیکھنا ہے کہ آپ نے کیا کیا، آپ کا منصوبہ فیل ہوگیا اور اس کا ڈیزائن غلط ہے۔عدالت نے استفسار کیا زیر زمین گیس پراجیکٹ پر 3.4 ارب روپے خرچ کے باوجود توانائی کی پیداوار صرف 8 میگاواٹ کیوں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک پراجیکٹ 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جس پر 1.9 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی جبکہ 330 میگاواٹ کے تین منصوبے زیر تکمیل ہیں اور ان پر 1.77 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درآمدی کوئلے سے چلنے والا ایک پلانٹ پورٹ قاسم دوسرا ساہیوال میں لگا، دونوں 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔عدالت نے زیر زمین گیسوں سے بجلی کی پیداوار کے منصوبے میں بد عنوانی پر کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ توانائی کے ماہرین اور سائنسدانوں پر مشتمل کمیٹی بنا رہے ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے سلمان اکرم راجہ اور شہزاد الٰہی کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا۔سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے منصوبے میں بد عنوانی کی تحقیقات سے متعلق جواب بھی طلب کرلیا اور کہا کہ نیب بتائے اس منصوبے میں کی گئی بد عنوانی کیسے سامنے لائی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ میں منرل واٹر بیچنے سے متعلق کی کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ منرل واٹر کمپنیوں نے لاہور اور شیخوپورہ کی زمینوں کو خشک کر دیا ہے،عوام سے درخواست ہے کہ بوتلوں کا پانی پینا بند کر دیں ،جنہوں نے ہماری زمینیں بنجر کیں اور پیسے بھی نہیں دیتے ان کے پانی کا استعمال بند کردیں۔تفصیلات کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کمپنیوں کی اکثریت غیر معیاری پانی بیچ رہی ہے اور اربوں گیلن پانی لیا گیا لیکن لاکھوں روپے بھی نہیں دیے گئے،پانی بیچنے والی کوئی کمپنی پیسے نہیں دے رہی۔جمعرات کو کیس کی گزشتہ روز سما عت کے دوران اعتزاز احسن نے عدالت عظمیٰ میں پانی کی صفائی سے متعلق رپورٹ پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ انڈس ساگا تو نہیں پڑھ رہے۔‘‘ منرل واٹر کمپنی کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ زیرزمین پانی نکالنے،صاف کرنے ،مارکیٹ کرنے پر اخراجات ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ایسا کرتے ہیں آپ کی ٹربائنیں بند کرا دیتے ہیں،کمپنی سے کہتے ہیں نلکے کا پانی دے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ کمپنیا ں اربوں روپے کمار ہی ہیں ، کمیونٹی کو واپس کیوں نہیں کرتے۔ جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ ایک روپے کا پانی لے کر52 روپے میں بیچتے ہیں ،لاہور میں زیر زمین پانی 400 فٹ تک پہنچ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بند کردیں اس انڈسٹری کو جو ملک کو بنجر بنا رہی ہے،لوگوں میں نخرے آ گئے ہیں آدھی بوتل پانی کی چھوڑ دیتے ہیں ، میں عوام سے کہتا ہوں نلکوں کا پانی پئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمپنیاں کام کرنا چاہتی ہیں تو ایک روپیہ فی لٹر حکومت کو دیں جس پر اعتزاز احسن کے وکیل نے کہاکہ ہم پچاس پیسے فی لٹر دے سکتے ہیں۔پانی فروخت کرنے والی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ عدالت جو بھی قیمت مقرر کرے ہم دینے کو تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سروس سٹیشنوں پر میٹھے پانی سے گاڑیاں دھوئی جا رہی ہیں اس پر جواب دیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک کار پر 400لٹر پانی خرچ ہوتاہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیمنٹ انڈسٹری کیلئے 5ہزار فی کیوسک قیمت نافذ ہو گئی۔این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے این آر او عملدرآمد کیس کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کو غداری کیس میں 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کردی۔کیس کی سماعت کے دوران سابق صدر پرویزمشرف کے وکیل اختر شاہ نے ان کی وطن واپسی سے متعلق جواب جمع کرایا۔اختر شاہ نے سپریم کورٹ سے کہا کہ گزارش ہے پرویز مشرف کے مرض کو صیغہ راز میں رکھیں۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس مرض کے مریض پاکستان میں بھی ہیں۔اختر شاہ نے دلائل دیئے کہ اگر مشرف کا آنا ضروری ہے تو انہیں ڈاکٹر سے ملنے کی اجازت دی جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالا جائے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کو پاکستان آنے دیں، کوئی گرفتار نہیں کرے گا، وہ غداری کیس میں 342 کا بیان ریکارڈ کرائیں، ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا نہیں کہہ سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دبئی علاج کیلئے کوئی اچھی جگہ نہیں، پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹر ہیں۔وکیل اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ مشرف حکومت پاکستان کی اجازت سے باہر گئے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دوبارہ کہہ رہے ہیں مشرف کو اجازت ہم نے نہیں دی۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کسی کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے، پرویز مشرف آئیں بیان ریکارڈ کرائیں جب علاج کیلئے باہر جانا ہو چلے جائیں۔ سپریم کورٹ نے متروکہ وقف املاک کی اراضی پولیس فاؤنڈیشن کو دینے سے متعلق کیس میں پنجاب حکومت‘ چیف سیکرٹری سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی،چیف جسٹس ثا قب نثار نے کہا کہ یہ نیب اور ایف آئی اے کی تفتیش کا معاملہ ہے،ریاست کا پیسہ لوٹنے نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وقف زمین پہلے پولیس فاؤنڈیشن پھر اشتہار کے ذریعے ایک شخص کو دی گئی۔ اس شخص نے اراضی مختلف لوگوں کو بیچ دی۔ یہ نیب اور ایف آئی اے کی تفتیش کا معاملہ ہے۔ پہلے 686کنال زمین پولیس فاؤنڈیشن کو دی گئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ زمین پولیس فاؤنڈیشن کو منتقل نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کا پیسہ لوٹنے نہیں دیں گے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 18اکتوبر تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں کے وکلاء کی ڈگریاں اور سکول سرٹیفکیٹس کی تصدیق کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ میں وکلاء ڈگریوں کی تصدیق سے متعلق گزشتہ روزکیس کی سماعت ہوئی۔ وائس چیئرمین بار کونسل نے بتایا اسلام آباد سے تین وکلاء کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ نمائندہ پنجاب نے بتایا لاہور میں تین وکلاء کی ڈگریاں جعلی نکلیں۔چیف جسٹس نے کہا جعلی وکلاء کی تصاویر اخباروں میں شائع کریں،ایسے پیشے سے کالی بھیڑوں کو باہر نکالیں۔
سپریم کورٹ/چیف جسٹس