آسودہ حال طبقات اور اسراف
ابو یحیی
’’مجھے پانچ کلو گوشت دے دو‘‘۔۔۔۔ ’’میرے لیے دو کلو چکن ڈرم اسٹک صاف کر کے بنادو‘‘۔۔۔ ’’مجھے دو کلو جھینگے اور تین کلو مچھلی تول دو‘‘۔ پاکستان کے کسی بھی آسودہ حال علاقے کے بازار میں بولے اور سنے جانے والے یہ روزمرہ جملے ہیں جہاں نئے ماڈل کی گاڑیوں سے اتر کر شاپنگ کے لیے آتے ہوئے مرد و خواتین دوکاندار سے قیمت پوچھے اور بھاؤ تاؤ کیے بغیر بے دریغ اشیائے خور و نوش خریدتے ہیں۔ بڑی بڑی سپر مارکیٹوں میں ٹرالی بھر کر ہزاروں روپے کا سودا خریدنے ، شاپنگ سنٹرز سے ہر ماہ نئے کپڑے اور جوتے ، ہر تقریب کے لیے نئے زیور بنوانے اور ہر برس فرنیچر اور گاڑی بدلنے والے بھی یہی آسودہ حال لوگ ہیں جن کی راہ میں مہنگائی کوئی رکاوٹ ڈالتی ہے اور نہ انھیں تنگی ہی کا کوئی اندیشہ ہوتا ہے۔
ان لوگوں میں حرام کھانے والے وہ لوگ ہی نہیں ہوتے جنھیں جہنم کی آگ میں جلنے سے قبل اپنی کمائی ہوئی غلاظت کو کہیں نہ کہیں خارج کرنا ہوتا ہے ، بلکہ وہ ایماندار تاجر، کارپوریٹ ملازمین اور دیگر پروفیشنلز بھی ہوتے ہیں جن کے ذرائعِ آمدن پر کوئی انگلی اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔ خدا نے آزمائش کے اصول کے تحت ان کو مال و دولت سے نوازا ہوتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ اس مال سے جنت کی ختم نہ ہونے والی نعمتیں خریدتے ہیں یا وہ فانی لذتیں اور عارضی سہولیات جنھیں چھوڑ کر، چند برس کے اندر اندر انھیں ، پروردگار کے حضور حساب کتاب کے لیے پیش ہونا ہو گا۔۔۔ یہ وہ دن ہو گا جب سوال صرف مال کمانے سے متلعق ہی نہیں ہو گا بلکہ یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اسے کیسے خرچ کیا؟
یہ سوال اتنا اہم ہے کہ قرآن مجید نے مال خرچ کرنے کو بڑی تفصیل سے اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان کے مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اسی نے یہ مال انسان کو عطا کیا ہے۔ اس کا حکم یہ نہیں ہے کہ لوگ اس مال کو اپنی ضرویات یا زندگی کی خوبصورتی حاصل کرنے پر خرچ نہ کریں۔ بس اس کی منشا یہ ہے کہ لوگ مال خرچ کرتے ہوئے اسراف اور فضول خرچی سے بچیں۔ کیونکہ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہوا کرتے ہیں۔
اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کے لیے شیطان کے بھائی کی تعبیر بڑی معنی خیز ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کے درمیان بھی بغض اور عداوت پیدا ہوجائے۔ جب لوگ بیجا مال خرچ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے پاس کبھی اتنے پیسے بچتے ہی نہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرسکیں جو ایک بنیادی دینی مطالبہ ہے۔ اللہ کے دین اور اس کے بندوں کی ضروریات کو نظر انداز کر کے اپنا مال ذاتی خواہشات کی تسکین کے لیے خرچ کرنا جب معمول بن جائے تو اس کا نتیجہ طبقاتی کشمکش، حسد اور نفرت کی شکل میں نکلتا ہے۔ غربا امیروں سے نفرت کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے درمیان سے مجرم اور ڈاکو پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یوں بیجا خرچ کرنے والے لوگ معاشرے میں نفرت، دشمنی اور فساد پیدا کرنے کا سبب بن کر شیطان کے مقاصد پورا کرتے ہیں۔
اپنی ضروریات پوری کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ مگر انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ جنت میں وہ خدا کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ کامیابی صرف اس شخص کا مقدر ہے جو اس دنیا میں اپنی ضروریات کو بے روک ٹوک بڑھنے نہ دے بلکہ ان کی حد بندی کرے۔ اپنی غیر ضروری خواہشات پر قابو پائے۔ وہ بے شک اپنی دنیا کی تعمیر پر خرچ کرے۔ مگر اس کے ساتھ وہ دوسرے ضرورت مندوں پر خرچ کر کے آخرت میں بھی اپنا سرمایہ محفوظ کرے۔ یہ کام کوئی فضول خرچ آدمی نہیں کرسکتا کیونکہ ایسے شخص کے پاس کبھی پیسے نہیں بچتے۔ فضول خرچ شخص اس دنیا میں شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ آنے والی دنیا میں وہ اپنے اسی بھائی کے ساتھ جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔