انٹرنیٹ پر وہ جگہ جہاں بچے فروخت کئے جاتے ہیں
جکارتہ(مانیٹرنگ ڈیسک)قربت قیامت کی نشانیاں ہیں، اب انسانوں کے بچے بھی یوں فروخت ہونے لگے ہیں گویا وہ انسان نہیں بھیڑ بکری کے بچے ہوں! اور یہ بھیانک دھندہ کرنے والوں کی دیدہ دلیری تو دیکھئے، سر عام بچوں کی خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ انڈونیشیا کی پولیس نے ایک فلاحی ادارے کی آڑ میں چلائے جانے والے ایک ایسے ہی خوفناک کاروبار کا سراغ لگایا ہے اور انسانی سمگلنگ و بچوں کی خرید و فروخت میں ملوث درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
میل آن لائن کے مطابق یہ لوگ فیملی ویلفیئر انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک نام نہاد ادارہ چلا رہے تھے لیکن دراصل سوشل میڈیا ویب سائٹ انسٹاگرام کے ذریعے بچوں کی خرید و فروخت کررہے تھے ۔ان کے ویب پیج پر موجود اشتہارات سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک سے ڈیڑھ ہزار ڈالر، یعنی تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ میں بھی بچہ فروخت کر رہے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گروہ کے سرغنہ اور اس کے درجنوں ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ بچے فروخت کرنے کے لئے ان لوگوں نے انسٹاگرام پر 100 سے زائد پوسٹس شیئر کررکھی تھیں۔ گروہ کے کارندوں کی بڑی تعداد کو سربایہ شہر سے گرفتار کیا گیا جبکہ کچھ ممکنہ گاہکوں کو بھی گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔
ایک پوسٹ جو کہ 15 ستمبر کے روز شیئر کی گئی اس میں ایک حاملہ خاتون کو دکھایا گیا ہے جو اپنے بچے کی پیدائش سے قبل ہی اسے بیچنے کی پیشکش کررہی ہے۔ ویب پیج حاملہ خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا بچہ کسی ضرورتمند جوڑے کو دینا چاہتی ہیں تو رابطہ کریں اور اسی طرح بچوں کو گود لینے والے جوڑوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ادارے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ لوگ بے اولاد جوڑوں کی مدد کے لئے فلاحی ادارہ چلا رہے تھے لیکن اس کی آڑ میں دراصل بچوں کی خرید و فروخت کا کاروبار چل رہا تھا۔