سی سی پی او لاہور کی کاوش،خاتون پروفیسر کی داد رسی
پنجاب یونیورسٹی سوسائٹی کی رہائشی ایک ”ریٹائرڈ پروفیسر“ خاتون تبسم شاد نے گزشتہ ہفتہ سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کے ہاں ”دفتر“ میں پیش ہو کر”آہ و بکا“شروع کردی،روتے ہوئے اپنی”فریاد“ سنائی،انصاف کے لیے ”ہاتھ جوڑتی“ رہی کہ اس دنیا میں اس کا ”کوئی نہیں، ماں باپ،بہن بھائی سب وفات پاچکے ہیں ِ،، اولاد بھی نہیں ہے۔ 17سال قبل اس کی ”یونیورسٹی ملازم“عمران صدیق سے”شادی“ہوئی جو کہ ”فراڈیہ “ اور انتہادرجے کا لالچی ثابت ہوا ہے اور وہ اب تک 4شادیا ں کر چکا ہے، یونیورسٹی میں ”گریڈ 21 کی پروفیسر“ہونے کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی نے اسے اپنے ٹاون ایدھی روڈ پر ایک کنال کا ”پلاٹ“ الاٹ کیاتھا جو اس نے اپنی جمع پونجی اور”پنشن“ کی رقم سے تعمیر کرکے گھر بنالیا،جس پر اس کے لالچی شوہر نے”قبضہ“ کرکے گھر کا سارا سامان بھی زبردستی ”لوٹ“ لیا ہے اور اسے ”دھکے“ دیکر گھر سے نکال دیا ہے،زبانی،کلامی ہوکر”طلاق“ بھی دیدی ہے اب وہ رائیونڈ روڈ پر لڑکیوں کے ایک ہاسٹل میں 6ہزار ماہوار کرائے پر پچھلے کئی ماہ سے عارضی”قیام پزیر“ ہے، دھکے کھاکراور بڑی مشکل سے اس نے اس لالچی شوہر اورفراڈیے کے خلاف”تھانہ چوہنگ“ میں ”مقدمہ“ درج کروایا، 3”ماہ گزر گئے ہیں،تفتیشی افسر ملزم پارٹی سے”ساز باز“ ہو گیا ہے اور انھیں ”گرفتار نہیں کر رہا“ملزم نے اس کے ”جعلی سائن اور انگوٹھے “لگا کر خود ساختہ رجسٹری بھی تیار کرلی ہے جس کی ”ویری فیکشن“ کروانے کے لیے تفتیشی افسر مسلسل ”ٹال مٹول“ سے کام لے رہا ہے۔سی سی پی او لا ہور عمر شیخ نے بڑے تحمل اور بردباری سے سائلہ کی یہ باتیں سننے کے بعد اپنے ”سٹاف“ کو اس مقدمے کے تفتیشی اورانچارج انوسٹی گیشن کو ٹھیک دوروز بعد”مثل مقدمہ“ ساتھ لانے اور پوری تیاری کے ساتھ”پیش “ہونے کی ہدایات جاری کیں اور سائلہ کوبھی حاضر آنے کو کہادوروز بعد 4اکتوبربروز اتور”چھٹی ہونے کے باوجود“ سی سی پی او لاہور نے سائلہ کی ”داد رسی“ کے لیے اپنے دفتر میں کھلی کچہری لگائی جس میں مثل مقدمہ،انچارج انوسٹی گیشن انسپکٹر غلام عباس، تفتیشی آفیسراے ایس آئی آصف اے ایس آئی صادق ”پیش“ ہوئے،سائلہ بھی موجود تھی سی سی پی او نے ”مثل خود پڑھنے“ اور بغور جائزہ لینے کے بعد سب سے پہلے انچارج سے پو چھا ”ملزم اب تک گرفتار کیوں نہیں“ ہو ا،انچارج انوسٹی گیشن نے بتایا کہ سر میں ”پچھلے ایک مہینے“ سے نیب کی جانب سے”مریم نواز“کے خلاف درج مقدمے کی تفتیش میں ”مصروف“ ہوں اور باقی ماندہ مقد مات پر توجہ نہیں دے سکا،تفتیشی آصف سے پو چھا آپ نے اب تک کیا کیا ہے اس نے جواب میں عرض کیا کہ“ جناب والا “، اس مقدمہ تفتیش پر اے ایس آئی صادق”مامور“ تھے جو کہ تین روز قبل ہی یہاں سے تبدیل ہوکر تھانہ لیاقت آباد میں جانے کی وجہ سے مجھے ایک روز قبل ہی یہ”مثل“ ملی ہے میں تو ابھی دونوں پارٹیوں کو تھانے حاضر بھی نہیں لا سکا،جس کے بعد تفتیشی آفیسرصادق سے پو چھا گیا کہ مقد مے کے حالات واقعات کیا ہیں سائلہ ایک اکیلی عورت ہے اس کی ماں نہ باپ، نہ بیٹا نہ بیٹی ”آخر ملزم کیوں نہ پکڑا گیا“، تفتیشی فرمانے لگا کہ سر میں کو شش کر رہا تھا کہ ”میاں بیوی “کی صلح ہو جائے، سی سی پی او کہنے لگے جب طلاق ہو جائے تو ،”کس قانون کے تحت“ ”میاں بیوی کی صلح“ ہو گی، آپ نے دونوں فریقین کی ”بالمشافہ گفتگو“ کروائی ہے،تفتیشی نے کہا ”نہیں سر“ ”سی سی پی او نے اصرار کیا“ کہ 3ماہ گزرجا نے کے باوجو د ”ضمانت خارج کیوں نہ کروائی گئی“آپ نے تو ”ضمنی میں لکھا ہے“ صلح ہو رہی ہے،سی سی پی او نے اپنے سٹاف کو حکم دیا کہ ”ایس پی لیگل کو بلواؤ“ تاکہ ان سے معلوم کیا جاسکے ۔ ”ناقص تفتیش“ پر ”قانون کیا کہتا ہے“ایس پی لیگل نے بتایا کہ ”پولیس آرڈر 2002“ کے تحت 155c“ کا مقدمہ درج کیا جا ئے گا سی سی پی او نے تھانیدار کو فوری ”پولیس یونیفارم “ اتارنے اور”ایس ایچ او چوہنگ “ کو دفتر بلوا کر صادق ”تھانیدار کو گرفتار“ کرنے اور لے جاکر ”حوالات بند کرکے“ ”مقدمہ درج “کرنے کا حکم دیا۔سی سی پی او نے انچارج انوسٹی گیشن اور موجودہ تفتیشی سچ بولنے پر معاف کر دیا اور انھیں ”ملزم کی”ضمانت خارج“ کروانے کا”ٹاسک“ دیتے ہوئے 7روز میں رپورٹ دوبارہ پیش کرنے اور انھیں ہدایت کی ہے کہ”میرٹ“پر تفتیش کرو اللہ سے اجر ملے گا ۔ سی سی پی او نے سائلہ کو ”مدد کی مستحق دیکھ کران سے”پولیس رویے“ پر معزرت کرتے ہوئے انھیں یقین دھانی کروائی ہے کہ ملزم چاہے جتنا بھی ”بااثر“ہو”قانون“سے بھاگ نہیں پائے گا ہر حال میں ”انصاف“ فراہم کیا جائے ۔ سی سی پی او عمر شیخ نے اپنے سٹاف کے ایک اہلکار کو سائلہ کے ساتھ بھجوا کر انھیں ان کے”ملکیتی گھر“ چھوڑنے کی ہدایت کی سائلہ خاتون نے بتایا ہے کہ اللہ کا”لاکھ لاکھ“ شکر ہے کہ اس دنیا میں اب بھی اس کے”فرشتہ صفت“ انسان“ موجود ہیں۔ واضح رہے سائلہ کہ اسی گھر میں ملزم کی دیگر دو بیویاں بھی رہائش پزیر ہیں اور انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ سائلہ اس ”گھر کی مالک“ ہے اسے کو ئی ”باہر نہیں نکال سکے گا“ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سائلہ نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ”سوتن کا ایک بیٹا“ بھی گود لے رکھا تھا مگر اس کے ”لالچی شوہر“ کو ترس نہ آیا اور اس نے ”جائیداد ہتھیانے“ کے چکر میں اسے گھر سے نکال دیا۔
تھانیدار ”صادق کی گرفتاری“ کے بعد شہر بھرکے تمام تھانیداروں سے لے کر”ایس پی“ تک بالخصوص شعبہ تفتیش میں ”ہلچل“ مچی ہوئی ہے۔ دوسری جانب سی سی پی او لاہور نے”آئی جی“ پولیس پنجاب کو ایک”خط“لکھا ہے جس میں پولیس میں ”کورٹ مارشل“ کیلئے ”تجویز“دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ آرمڈ فورسز میں کورٹ مارشل کی طرز پر پولیس میں بھی ”سزاء جزاء کا نظام متعارف کروایا جائے“ ،سی سی پی او کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت سزائیں دینے سے کوئی بہتری نہیں آرہی، موجودہ قوانین کے تحت”سخت سے سخت سزاؤں کے باوجود “ اہلکار و افسر محکمے کا حصہ ہیں،، پولیس میں نوکری سے نکالے جانے پر اہلکار دوبارہ ”سول کورٹس، سروس ٹربیونل و دیگر طریقوں سے واپس آجاتے ہیں“ جس سے عوام و الناس کا روزبروز پولیس سے ”اعتماد“ اٹھتاجارہا ہے، پولیس کورٹ مارشل متعارف کروانے کا مقصد غفلت اور کوتاہی پر کوئی اہلکار و افسر دوبارہ ”نوکری پربحال“ نہ ہو سکے، پالیسنگ آف پولیس کیلئے ”کٹرے احتساب کی اشد ضرورت ہے،،، جب تک سخت سے سخت سزائیں دیتے ہوئے کرپٹ، بد اخلاق اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے اہلکاروں و افسروں کو گھروں میں نہیں بھیجا جا سکتا،،، تب تک پولیس کو حقیقی معنوں میں عوام و الناس کی تابع نہیں کیا جا سکتا، یاد رہے سی سی ہی او لاہور کی طرف سے اختیارات سے تجاوز کرنے، ناقص تفتیش اور حقائق/ شواہد مسخ کرنے پر”اب تک 12 اہلکاروں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاچکی ہے۔وزیر اعظم
پاکستان وزیر اعلی پنجاب اورآئی جی پولیس انعام غنی بھی تھانہ کلچر کی تبدیلی کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں اور سی سی پی لاہور ان کے ویژن کے مطابق پورا اترنے کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہیں اور انھیں ان سب کی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہے۔ان
کا یہ عمل قابل ستائش ہے اور ایسی کارروائیوں کی وجہ سے عوام کی جانب سے ”پزیرائی“بھی ملتی ہے مگر”افسوس ناک“امریہ ہے کہ کسی بھی آفیسر کے”سخت گیر اور جارحانہ رویے کی وجہ سے فورس میں سخت بددلی بھی ایک فطرتی عمل ہے،، ، نکمے اور نکھٹوپولیس افسران کے ساتھ دیانت دار اور محنتی پولیس افسران کو ایک ہی لا ٹھی سے ہانکنا اچھا عمل نہیں ہے۔پولیس افسران کا سی سی پی او کے ساتھ کام کرنے سے ”انکار کرنا“ اور انھیں ہر وقت یہ”خطرہ لاحق رہنا کہ سی سی پی او کی جانب سے کسی وقت بھی انھیں ”زلت آمیز“ رویے کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے،درست نہیں،پھر عمر شیخ کے میڈیا کے ساتھ تعلقات خوسگوار نہ ہو نا یہ سب کچھ حکومت،ادارے اور خود سی سی پی او کے لیے”خوش آئند“ نہیں ہے۔یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ شفیق گجر کے سفارشیوں کو معاف کر دیا جاتا ہے،7ایس ڈی پی اوز جو ادل بدل کیے گئے ہیں انھیں خلاف قانون قرار دیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے،عمر شیخ عوام کی بھلائی اور حکومت کی نیک نامی کے لیے تمام تر اقدامات عمل میں لا رہے ہوں۔مگر حالات کا یہ تقاضا ہے کہ انھیں رویے میں تبدیلی لانے کے ساتھ،اپنے پولیس افسران کا اعتماد بھی حاصل کر نا ہو گا، میڈیا پرسن جو معاشرے کا آئینہ سمجھے جاتے ہیں ان کے ساتھ بھی دوستی کا ہا تھ بڑھانا ہو گا،،، ’اس میں کو ئی شک نہیں ’اگر جزا و سزا کا نظام رائج کر دیا گیا تو پولیس کے محکمے میں تبدیلی آ سکے گی وگرنہ عوام میں مایوسی بڑھے گی اور پولیس کی وحشت ناکی بڑھتی چلی جائے گی“۔ہماری عاجزانہ رائے کے مطابق مستقبل میں بھی صرف ”پولیس کی انتہا پسندی“ بڑھے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کی سات دہائیوں کا گہری نظروں اور یادداشت کے ساتھ مطالعہ کیا ہے، وہ صرف ایک نقطے پر غور کر لیں جس کا تعلق پنجاب پولیس سے ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد کے سپاہی سے لے کر آئی جی“ تک پولیس کی تنخواہوں اور حالاتِ کار کی ناگفتہ بہ زیادتیوں پر اس محکمے کی آہ و بکا سے ایسا لگتا تھا، پورا پنجاب ”جناز گاہ“ بن چکا ہے۔ کہا جاتا تھا، ان کی تنخواہیں اور حالات کار درست کر دینے پر یہ ”عوام“ کی جان، مال خصوصاً عزت کے ”شیر دل محافظ“ ہوں گے۔آج آپ اس غریب ملک میں ان لوگوں کی تنخواہوں، مراعات، ان کے مطالبوں پر اربوں روپوں کے مخصوص کردہ اب تک کے بجٹوں پر ششدر رہ جائیں گے مگر سچ کیا ہے؟،وہ پولیس کانسٹیبل جو 49,48میں ”بے عزتی“ کرنے میں تھوڑی سی ”حیا“ کرتا تھا، آج بے پناہ مالی فوائد کے باوجود ”حیا“ تو رہی ایک طرف پوری دیدہ دلیری سے ”شہری“ کے احترام کی ”ایسی کی تیسی“ کر دیتا ہے۔آپ پہلے خود سے اور پھر قائداعظم سے سوال کریں گے ”بتاؤ پاکستان ان ”باوردی طاقتوروں! کے ہاتھوں ہمارے ”احترام“ کا نہایت تکبرانہ اسٹائل سے ”قبرستان“ تعمیر کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا؟ پولیس گردی اورحالات پر نظر دوڑائیں تو، یہ محکمہ ختم کر دینا چاہئے، لیکن پاکستانی محکموں نے اِس ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب آپ ایک اخبارکی شائع شدہ ایک خبر پڑھیں، پھر بات کرتے ہیں۔ ”پنجاب پولیس کے 37افسروں اور اہلکاروں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال میں ریپ، گینگ ریپ اور منشیات فروشی کے 32مقدمات ہوئے جن میں سے متعدد کے خلاف چالان مکمل نہیں ہو سکے“۔ یہ انکشاف پنجاب انفارمیشن کے حکم پر پنجاب پولیس کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں ہوا ہے۔ پولیس اہلکاروں کے خلاف ریپ و گینگ ریپ مقدمات میں لاہور سرفہرست رہا جہاں پولیس افسروں اور اہلکاروں کے خلاف 9کیسز جبکہ منشیات فروشی کے 4کیسز رجسٹر ہوئے۔ اور جو بات کرنی ہے، وہ بس مختصر سی ہے، پنجاب میں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات کی تاریخ کیلئے بھی ایک ریسرچ کونسل بنا دیں، آپ کو ان مقدمات کا ناکام انجام دیوار پر لکھا نظر آئے گا۔کیسا اذیت ناک لمحہ ہے، مقدس اور حسین ترین الفاظ اپنی عظمت کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، بنیاد ”عوام“ کو بنایا جاتا ہے مثلاً پولیس کا مورال نہیں گرنا چاہئے، شرتوں کی Backپر "No Fear"اور سینوں پر ”محافظ“ لکھ کر لوگوں کو ان کے مجاہد اول و آخر کا درس دیا جاتا ہے۔یہ سب عمل کی عدالت میں ایک مہذب ترین انتظامی حربہ سازی ہے، شہری اپنی، اپنے ملک کی انتظامی فورسز کے سامنے صرف اور صرف ”غلام“ ہے، بس ملک کا نام ”پاکستان“ ہے۔