سلطان پور: تیزاب گردی کیس مخالفین کو پھنسانے کی کوشش، حقائق بے نقاب
سلطان پور(نامہ نگار) سلطان پور تیزاب گردی کیس کا ڈراپ سین ہوگیا، خاتون نے بھائیوں کو مقدمات سے بچانے کیلئے تیزاب گردی کا جھوٹا ڈرامہ رچایا،بے بنیاد کیس میں آشنا اور اس کے رشتہ داروں کو پھنسانے کی کوشش تفصیلات کے مطابق سلطان پور(بقیہ نمبر21صفحہ6پر)
کے نواحی علاقہ موضع مسن کوٹ بھواہ کی رہائشی خاتون چھ بچوں کی ماں اپنے آشنا محمد عارف کے ساتھ 2-6-20 کو گھر سے فرار ہو گئی تھی اور گوجرانوالہ کے شہر نوشہرہ میں اپنے سابق خاوند غلام مرتضی کے خلاف تنسیخ نکاح کا دعوےٰ دائر کیا اور فیملی کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنی مرضی سے عارف کے ساتھ شادی کرلی۔ کلثوم مائی نے نوشہرہ فیملی جج کو بیان دیا کہ غلام مرتضیٰ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اب میں اپنی مرضی سے محمد عارف کے ساتھ رہے رہی ہوں۔جس کے بعد کلثوم کے سابقہ خاوند نے ایک ماہ بعد 3-7-20 کو ایڈیشنل سیشن جج علی پور کی عدالت میں ایک رٹ دائر کی کہ محمد عارف میری بیوی کو اغواء کر کے لے گیا ہے لیکن پیشی پر خود حاضر نہ ہوا تو معزز عدالت نے عدم پیروی پر رٹ خارج کر دی جس کے بعد کلثوم کے بھائی سجاد نے ایڈیشنل سیشن جج علی پور کی عدالت میں بھی رٹ دائر کی جو جھوٹی ثابت ہونے پر خارج ہو گئی جس کی رنجش پر کلثوم کی والدہ نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں بھی رٹ دائر کی جہاں پر کلثوم مائی نے بیان دیا کہ میرے سابقہ خاوند غلام مرتضیٰ نے مجھے بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا تھا محمد عارف نے مجھے سہارا دیا میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ رہ رہی ہوں مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا جس پر ہائی کورٹ نے کلثوم کو عارف کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی جس پر کلثوم کے بھائیوں اور والدین اور سابقہ خاوند نے محمد عارف کے گھر دھاوا بول دیا اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں محمد حسین، راہب کلیم، حق نواز، شدید زخمی ہو گئے واقعہ کی اطلاع پر پولیس تھانہ سیت پور نے زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال علی پور منتقل کیا ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں نے راہب کلیم سمیت دیگر کو تشویش ناک حالت کے پیش نظر بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال ریفر کر دیاجہاں پر راہب کلیم کا سٹی سکین ہوا اور دماغ کا اپریشن کیا گیا۔پولیس تھانہ سیت پور نے محمد بخش کی رپورٹ پر غلام مرتضیٰ،محمد شاہد، غلام مصطفیٰ، پہلوان، رمضان سمیت آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ نمبری185/20 بجرم 324 کے تحت مقدمہ درج کر کے محمد شاہد کو گرفتار کر لیا گیا جسے ملزم قرار دے کر ڈسٹرکٹ جیل مظفرگڑ ھ بھیج دیا گیا۔جبکہ کلثوم کا دوسرا بھائی ضمانت خارج ہونے پر عدالت سے فرار ہو گیا جس کے بعد کلثوم کی والدہ مختیار مائی نے بیٹی کلثوم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ تمہارا بھائی اس وقت جیل چلا گیا ہے تم عارف پر دباؤ ڈالو کہ وہ راضی نامہ کر لیں کلثوم نے عارف کو راضی نامہ کی بات کی تو عارف نے کہاکہ ہماری وجہ سے میرا پورا خاندان ہسپتال میں ہے تمہارے بھائیوں نے ان کو بلا وجہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے میں کس منہ سے اپنے والدین کو راضی نامہ کی بات کروں یہ بات کلثوم کو نا گوار گزری جس پر کلثوم نے والدہ کو فون پر واپس آنے عارف اور اس کے خاندان پر مقدمہ درج کرانے کی یقین دہانی کرائی تو وہ اسے نوشہرہ سے واپس لے آئے کلثوم نے عدالت میں بیان دیا کہ مجھے عارف وغیرہ نے گن پوائنٹ پر اغواء کیا اور میرے ساتھ زنا حرام کرتا رہا اور یہ بات پولیس کو نہ بتائی کہ میں اپنی مرضی سے عارف کے ساتھ گئی تھی اور اپنے خاوند کے خلاف تنسیخ نکاح کا دعوےٰ دائر کیا تھا اور ہائی کورٹ میں عارف کے حق میں بیان بھی دے چکی تھی اور عارف وغیرہ پر تھانہ سیت پور میں مقدمہ نمبری231/20 بجرم 376,496A درج کرا دیا گزشتہ روز شاہد کی رہائی کی ناکامی پر کلثوم اور اس کے سابقہ خاوند غلام مرتضیٰ باہم مشورہ ہو کر ترنڈہ محمد پناہ پولیس کو ایک درخواست گزاری کہ ہم اپنے بیٹے کاشف کی دوائی لینے ترنڈہ محمد پناہ آئے تھے جب ہم واپس ہیرے والا پتن بستی جھنڈے والا پہنچے تو پیچھے سے محمد عارف حق نواز خلیل احمد محمد شمیر آ گئے اور زبر دستی ہمارا موٹر سائیکل روک لیا تھا محمد عارف اور حق نواز میری بیوی کلثوم کو کچھ فاصلے پر لے گئے اور اس پر تیزاب ڈال دیا جب ہم نے مدد کیلئے شور مچایا تو گواہان پہلوان اور مصطفیٰ آ گئے جنہیں آتا دیکھ کر ملزمان فرار ہو گئے وجہ عناد یہ ہے کہ میری بیوی نے ملزمان کے خلافبد اخلاقی کا مقدمہ درج کرایا ہوا ہے ترنڈہ محمد پناہ پولیس نے غلام مرتضیٰ کی رپورٹ پر عارف وغیرہ کے خلاف مقدمہ نمبری 521/20 بجرم 336B درج کر لیا متاثرین محمد بخش،رب نواز راہب کلیم حق نواز اللہ وسایا، اظہر حسین، احمد حسین، سمیت علاقہ کے سینکڑوں لوگوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئیے بتایاکہ یہ سب ڈرامہ شاہد کو رہا کرانے کیلئے رچایا گیا ہے کلثوم اپنی مرضی سے عارف کے ساتھ گئی تھی اور مختلف عدالتوں میں بھی بیان دیتی رہی ہیں جس کے تمام ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اس پر کسی نے تیزاب نہیں ڈالا متاثرین نے بتا یاکہ کلثوم اور غلام مرتضیٰ کا گھر بستی ڈھوری موضع مسن کورٹ بھواہ میں ہے ان کے گھر سے سلطان پور کا فاصلہ8 کلو میٹر ہے جبکہ سیت پور ہسپتال کا فاصلہ 16 کلو میٹر ہے اسی طرح تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال علی پور کا فاصلہ30 کلو میٹر ہے اگر ان کے بچے کو تکلیف تھی تو وہ نزدیکی ہسپتال چھوڑ کر 70 کلو میٹر کچا راستہ دریا کراس کر کے ترنڈہ محمد پناہ دوائی لینے کیوں گئے تھے جبکہ انہیں علم تھا کہ شام کو چھ بجے پتن بند ہو جاتا ہے وہ ساڑھے چھ بجے وہاں کیسے پہنچے کلثوم کے گھر سے پتن ہیرے والا کا فاصلہ18 کلو میٹر ہے تو گواہ وہاں پر اچانک کیسے آ گئے تھے جب رات کو پولیس نے ہمارے گھروں پر رٹ کیا تو تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے جو ملزمان کسی پر تیزاب ڈالتے ہیں کیا وہ چین کی نیند سوتے ہیں۔کلثوم مائی کے مطابق کہ اس کے صرف ایک بازو تیزاب سے متاثر ہوا ہے جو لوگ کسی رنجش پر تیزاب ڈالتے ہیں تو وہ پورے جسم اور چہرے پر ڈالتے ہیں یہ کیسے مجرم تھے جو صرف ایک بازو پر ہی تیزاب ڈال کر فرار ہو گئے جبکہ کلثوم کے جسم کے باقی کسی بھی حصے پر تیزاب کا کوئی نشان تک ہی نہیں ہے۔یہ دراصل جھوٹا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او ترنڈہ محمد پناہ بشارت اللہ نیازی پر ہمیں مکمل اعتماد ہے کہ وہ میرٹ پر کاروائی کر رہے ہیں انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب چیف جسٹس ہائی کورٹ آئی جی پنجاب آر پی او ڈیرہ آر پی او رحیم یار خان ڈی پی او مظفرگڑھ ڈی پی او رحیم یار خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں کہ کلثوم کے جسم پر تیزاب کس نے ڈالا اگر ہم پرجرم ثابت ہوئے تو ہر قسم کی سزا کیلئے تیار ہیں۔
تیزاب گردی