”لڑائی“ واقعی آگے چلی گئی۔۔۔بحران کسی کے حق میں نہیں ،گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،”سہیل“ قبول نہیں،یہ کوئی کھیل نہیں
لڑنے سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا، گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، خیبرپختونخوا میں آئینی بحران کسی کے حق میں نہیں ہو گا
خیبر پختونخوا کے پٹھان ”امین“ نے کپتان سے وفا نبھا دی۔ خان نے سہیل کے سر پر دستار سجا دی۔ لیکن استعفے کا معاملہ نہ اُگلا جا رہا ہے اور نہ ہی نِگلا جا رہا ہے۔سہیل کسی صورت قبول نہیں، صاف صاف کہہ دیا گیا۔ کیا ”انہیں“امین پر ”یقین“ہے؟ اور کیا اسی ”یقین“ نے امین کو کپتان سے دور کیا؟الزامات، خدشات، وسوسے، اندیشے بڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ تحریر میں عرض کیا تھا، ”وہ“ لڑائی آگے لے گیا۔ ”لڑائی“ واقعی آگے چلی گئی۔
علی امین گنڈا پور نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفا 8 اکتوبر کو دے دیا۔ 48 گھنٹے تک وہ استعفا کسی کو نہ ملا۔ یہ استعفا کسی ”کبوتر“ کے ہاتھ تو بھیجا نہیں گیا کہ”وقت مقررہ“ پر ”صحیح جگہ“ پہنچا نہ ہو۔ واقفانِ حال کے مطابق علی امین گنڈا پور نے ”ہدایت“ ملتے ہی اپنے سٹاف سے استعفا ”ٹائپ“ کرنے کا کہہ دیا۔ استعفا تیار ہوا۔ایوان وزیراعلیٰ سے ”ڈائریکٹر لیول“ کا افسر استعفا بذات خود لے کر گیا اور گورنر ہاؤس کے ایک ذمہ دار افسر ”شاہ جی“ نے استعفا وصول کیا۔ اس سے پہلے سوشل میڈیا پر ”چھپ“ چکااور”بِک“ چکا۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے 8اکتوبر 2025ء کو رات 8 بج کر 9منٹ پر شاعرانہ تبصرہ کچھ ایسے کیا:۔
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اب گورنر صاحب کہتے ہیں ”استعفا ان کے پرنسپل سیکرٹری تک نہیں پہنچا، ملتے ہی قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا“۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کو ”جلدی“ ہے۔
ہر جگہ ”ہاہا کار“ مچی رہی۔ استعفا کہاں گیا؟ کچھ نے کہا ”یہ استعفا ”غائب“ ہو چکا ہے۔ کوئی بولا ”استعفا مل بھی گیا تو منظور نہیں ہو گا“۔ ساتھ ہی ”آئینی تڑکا“ بھی لگا دیا گیا۔ کہا گیا”استعفا ہاتھ سے لکھ کر نہیں بھیجا گیا۔ یعنی 73ء کے آئین کی رو سے ”کورے کاغذ“ پر ہاتھ سے لکھا ہوا استعفا ہی قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ 11اکتوبر2025ء بروز ہفتے کو علی امین گنڈاپور نے ہاتھ سے استعفا لکھ کر گورنر ہاؤس بھجوا دیا۔ اس بار استعفا ”مل“ بھی گیا۔ لیکن ٹائپ شدہ استعفے کا معمہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
پنجابی کی ایک کہاوت ہے”پنڈ وسیانئی، اچکے پہلاں ہی آ گئے“۔ سہیل آفریدی ابھی وزیراعلیٰ بنے نہیں مگر حکومت خم ٹھونک کر میدان میں آ چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے، سہیل قبول نہیں۔ وہ ریاست مخالف ہیں۔ وہ سخت گیر موقف رکھنے والے آدمی ہیں۔ جیسا کپتان کہے گا، وہ ویسا ہی کریں گے۔ تو بھائی!عمران خان اسی لیے تو انہیں لا رہے ہیں۔ اس میں اتنی ”اچنبھے“ والی بات کیا ہے؟آپ کیوں پریشان ہیں؟ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے علی امین گنڈا پور کے بارے میں آپ کی کیا رائے تھی؟ یہ سب تو آپ ”امین“ کے بارے میں بھی کہتے رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے لوگ پڑھے لکھے، باشعور اور جی دار ہیں۔ سیاسی شعور سے مالا مال ہیں۔ اور تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا ہو گا۔ جس طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کی جڑیں خاصی گہری ہیں، اسی طرح خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اپنی جڑیں گہری کر چکی ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو تحریک انصاف کے خطرے کا سامنا ہے۔
ملک سے دہشت گردی کا خطرہ ٹل نہیں رہا۔اور خیبر پختونخوا میں نیا Battle Ground سج چکا ہے۔ بیٹھنا پڑے گا۔ تدبر اور حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا ہو گا۔ اور یہ اسی صورت ہو گا کہ فریقین بیٹھیں۔ ایک دوسرے کو سنیں۔ مسلم لیگ (ن )کی وفاق میں حکومت ہے۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسے آگے بڑھنا چاہیے۔ کے پی میں لگی آگ پر تیل چھڑکنے کی بجائے پانی ڈالے۔ یہ وقت ہے، وزیراعظم شہباز شریف آگے بڑھیں اور پاکستان تحریک انصاف کو ساتھ بٹھائیں۔ کب تک ہمارے فوجی جوان دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنتے رہیں گے۔ یہ وقت سیاست کا نہیں، ڈائیلاگ کا ہے۔آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد بھی تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر بیٹھی تھیں۔ اب بھی وقت ہے، معاملات کو سمجھیں۔
مشرقی سرحد پر بھارت کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں کہ مغربی سرحد پر افغانستان نے حملے شروع کر دیئے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ کے مقامات پر بلااشتعال فائرنگ کی۔ بلوچستان کے سرحدی علاقے چاغی میں بھی فائرنگ کی گئی۔ پاک فوج نے فوری اور شدید ردعمل دیا۔ افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ بھاری نقصانات کے باعث متعدد افغان چوکیاں خالی ہو گئیں۔ افغان فوجی لاشیں، یونیفارم اور ہتھیار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ افغانستان نے پاکستان سے بھاری جوابی کارروائی روکنے کی درخواستیں کی ہیں۔
مشرقی محاذ، مغربی محاذ، اندرونی محاذ، سارے محاذ کھل چکے ہیں۔ افغانستان کے وزیر خارجہ اس وقت بھارت میں بیٹھے ہیں۔ہمیں اس وقت اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام ہو گا تو بیرونی دشمنوں سے نمٹا جا سکے گا۔ سیاسی قوتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
لڑنے سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ کے پی میں دہشت گردی تو ہے ہی، آئینی بحران پیدا نہ کیا جائے۔اکثریتی جماعت کو وزیراعلیٰ بنانے کا حق ہے۔ اسے یہ حق دیا جائے۔ وفاقی حکومت کہتی ہے، اسے”سہیل“ قبول نہیں۔ یہ ملک ہے، کوئی کھیل نہیں۔ گزشتہ تحریر میں عرض کیا تھا ”وہ“ لڑائی آگے لے گیا۔ اب لکھنا پڑ رہا ہے ”لڑائی“ واقعی آگے چلی گئی۔ لوٹ آؤ کہ بہت دیر ہو جائے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں
