میڈیا، حکومت اور سیاست

میڈیاکے احتساب کا راگ اب ہلکے سروں میں الاپا جا رہا ہے، لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ راگنی ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں جن صحافیوں اور سیاستدانوں نے سپریم کورٹ کا رُخ کیا،ان کا نام تاریخ میں لکھا جا چکا ہے۔کئی ٹی وی چینل اپنے ہی پیٹی بند بھائی اور بہنوں کو ٹاک شوز میں بلا کران سے یہ موضوع زیر بحث لا رہے ہیں۔ یہ احتساب صرف اینکر پرسن کا ہی نہیں ہو رہا، بلکہ بات دور تک جا رہی ہے۔ بات میڈیا مالکان سے ہوتے ہوئے اپوزیشن اور حکومتی ایوانوں میں داخل ہو رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے" سیکرٹ فنڈ" کا قیام کوئی نئی بات نہیں۔ کوئی محقق اگر سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہو جائے تو سیکرٹ فنڈ کی "عظیم روایت"کا بیج بیورو کریٹ گورنر جنرل غلام محمد کے دورِ حکومت میں بویا گیا تھاجو اربوں روپے تک جا پہنچی ہے۔ ماشا ءاللہ اب تو یہ پودا برگ و بار لا چکا ہے، شائد یہی وجہ ہے کہ اس کے سوکھے پتے جگہ جگہ گرے پڑے ملتے ہیں۔صرف سڑکوں پر ہی نہیں،بلکہ گھروں کے اندر بھی فیڈ کی گئی پلانٹڈ خبر کو عام قاری پہچان نہیں سکتا۔
مختلف حکومتیں ایک مدت ہوئی سرکاری محکموں کی طرف سے جو اشتہار جاری کرتی ہیں، ان میں حکمرانوں کا سیاسی پروپیگنڈہ بھی شامل ہوتا ہے۔یہ اشتہارات ایک چوتھائی صفحے سے لیکر پورے صفحے پر محیط ہوتے ہیں۔کئی مرتبہ کسی مخصوص یوم یا مہم کے دوران کئی صفحات پر پھیلا ہوا پورا سپلیمنٹ بھی ہوتا ہے۔ ایسی تمام سرکاری اشتہاری مہم کے نتیجے میں مالکان ایک کثیر رقم سمیٹتے ہیں ۔دوسری طرف حکومت میڈیا تعلقات کی ایک یہ تاریخ ہے کہ حکومت اپنی تعریف میں گن گانے والے چینلز اور اخبارات کو ہی اشتہارات دیتی ہے۔ جس نے ذرا سابھی حکمِ اذان بلند کیا، وہ راندہ درگاہ ٹھہرا اور جورطب اللسان ہو گئے، انہوں نے اپنی دنیا سنوارلی اور رفعتیں پا گئے۔ پیسے کی چمک کا یہ چلن برسوں پرانا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گریبان میں اتنا جھانکنے کی جسارت پہلی بار کی جار ہی ہے۔
مالکان کے اس مؤقف میں بھی کافی وزن نظر آتا ہے کہ ہمارے ادارے کے ذریعے سینکڑوں ، ہزاروں خاندانوں کی پرورش ہو رہی ہے۔ ہم نے جومعاشی کفالت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ صرف ذراسی حق گوئی کی غلطی کی وجہ سے رُک کیوں جائے؟ اس اندرونی حقیقت کو بھی اپنی جگہ جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس" انکم سپورٹ پروگرام "کی گنگا میں ہاتھ مالکان ہی دھورہے ہیں۔ ورنہ بندہ مزدور کے اوقات تو کل بھی تلخ تھے اور آج بھی ہیں۔ یقیناصحافت اسی لئے آج کے دور میں فریبِ سُود وزیاں کا سا سودا بن کر رہ گیا ہے۔
ایسے پیچیدہ ترین حالات میں مالکان اور عامل صحافی اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ مالی منفعت اور اخلاقی ذمہ دارےوں کا بیک وقت تحفظ کیسے کیا جائے؟ اس نازک اور حساس مرحلے پر ماضی میں توعلامت نگاری کا سہارا لیا جاتا رہا ہے، لےکن کےا کےا جائے کہ اس عمل سے صحافت فِکشن(fiction) کے قریب ہو جاتی ہے،۔ شاید اسی لئے اکثر پرائےویٹ ٹی وی چینلوں کے نیوز بلیٹن فلمی انداز لئے ہوتے ہیں۔
2002ءسے آزاد شدہ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کو لیڈ کر رہا ہے۔ کراس میڈیا گروپ وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔نتیجتاً حکومت کو ایک ادارے کے کئی منہ میں نوالا ڈالنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کراس میڈیا گروپ کی پالیسی اپنے ہی مختلف میڈیا میں مختلف ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ رات کے جنرل نیوز بلیٹن کی پہلی خبر اگلی صبح اس گروپ کے اخبار کی شہ سُرخی نہیں ہوتی۔ فنی طورپر یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کیمرے کی آنکھ سے بہت کم وقت میں جو سنسنی پھیلائی جا سکتی ہے، وہ کاغذ پر چھپے لفظ سے اتنی جلدی ممکن نہیں۔ متحرک تصویر، ساکت و جامد تصویر کی نسبت زیادہ اثر رکھتی ہے اور اگر اس کے ساتھ بولنے والے یا والی کی آواز کا جادو بھی شامل ہو جائے تو یہ جادوسر چڑھ کر بولتا ہے۔ سو میڈیا گروپ کے پالیسی ساز ہر خبر کے ساتھ ساتھ ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ٹی وی چینل بہت تیز بھاگ رہے ہیں اور اخبار ان کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔
حکومت۔ اپوزیشن اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی میڈیا گروپ کو ناراض نہیں کر سکتے، بلکہ سیاست اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کی اہم ضرورت بن چکے ہیں۔ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی زمینی حقیقت کے نتیجے میں حکومت، اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو ٹاک شوز اور دیگر پروگراموں میں آ کر صرف اصولی باتیں ہی نہیں کرنی چاہئیں، بلکہ عملاََ ایسے راستے بھی پیدا کرنے چاہئیں، کہ میڈیا ان عظیم اخلاقی اصولوں کو اختیار بھی کر سکے ۔ خود میڈیا کو بھی ان اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے لئے کچھ زیاں کاری کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دو دھاری بات لکھنا اور کہنا آسان ہے ،مگر اس پر حقیقی معنوں میں عملدر آمد کرنا بہت مشکل ہے ،چلیں توجہ دلانے میں کیا حرج ہے۔شاعر نے شاید اسی لئے کہا تھا:
آواز دے کر دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
کچھ لوگ میڈیا ethicsپر عمل درآمد کے شوروغوغا کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات کے اس پردے سے کچھ اسلامی تعلیمات نکل آئیں گی اور ہمیں جبراََ حکم دیا جائے گا کہ اس پر عمل درآمد کرو ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس شور و غوغا کو شروع میں ہی روک دیا جائے، ایسے لوگوں کے واویلے کے پیچھے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے تصادم کی بو آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں یہ سارا کچھ عدلیہ کروا رہی ہے تو وہ صحافتی اخلاقیات پر عمل درآمد سے فرار چاہتے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اب یہ حیلے پرویزی ثابت ہوں گے۔ ٭