غزہ، اسرائیل جنگ: حماس نے کیا کھویا کیا پایا؟
غزہ اور اسرائیل کے درمیان تقریباً پچاس دن تک جاری رہنے والی جنگ بالآخر چند دن قبل ختم ہو گئی۔یہ جنگ بندی مصری حکومت کے تعاون سے فریقین کے مابین طویل عرصے پر محیط مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکی۔اس سے قبل ترکی اور قطر کی جانب سے کی جانے والی کوششیں اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور بعض عرب اور مغربی ممالک کے عدم تعاون کی وجہ سے بارآور نہ ہو سکیں، دکھ کی بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار فلسطینی عوام کو مسلم ممالک کی زبانی حمایت بھی حاصل نہ ہو سکی۔ایک طرف ترکی کے صدارتی انتخابات تھے تو دوسری طرف عراق اور شام میں جاری داعش کی سرگرمیاں.... پاکستان اگرچہ اس خطے سے بہت دور واقع ہے ، لیکن پھر بھی فلسطینی عوام کو ہمیشہ پاکستان کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے، لیکن اس بار پاکستانی حکومت، عوام اور ذرائع ابلاغ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے نام پر اسلام آباد میں تین ہفتے سے جاری دھرنے میں مشغول رہے اور ان کی توجہ غزہ کی جنگ کی طرف مبذول نہ ہو سکی۔حکومت تو ایک طرف، ذرائع ابلاغ بھی اس جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے عوام کو آگاہ کرنے میں ناکام نظر آئے۔یہ بات سوچنے کی ہے کہ ان دھرنوں کے لئے اس وقت کا تعین کیوں کیا گیا۔کہیں اس کے پیجھے کوئی خفیہ ہاتھ تو کارفرما نہیں؟
اس جنگ میں اگرچہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر وحشیانہ بمباری اور شدید زمینی حملے کے نتیجے میں فلسطینی عوام کا بے پناہ مالی اور جانی نقصان ہوا، لیکن اس کے باوجود اسرائیل اپنے مطلوبہ اہداف اور مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔یہ جنگ جس کو ذرائع ابلاغ نے بوجوہ عرب، اسرائیل جنگ کی بجائے غزہ اسرائیل جنگ کا نام دیا اس کا ہدف غزہ پر ایک بھرپور جنگ مسلط کرکے حماس کو اپنی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ اسرائیل اور مصر کے مشترکہ مقاصد کے تحت حماس کی جنگی اور دفاعی صلاحیت کو اس حد تک نقصان پہنچانا تھا کہ آئندہ وہ اسرائیل کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔اس حکمت عملی کے تحت جان بوجھ کر غزہ کے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، تاکہ غزہ کے علاقے میں رائے عامہ کو حماس کے خلاف کرکے اس کی حریف الفتح کے اقتدار کی راہ ہموار کی جا سکے۔اس جنگ میں تقریباً 3000 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں تقریباً 500بچے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے۔ دوسری طرف اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کی جھوٹی برتری ثابت کرنے کے لئے اسرائیل کے نقصان کو گھٹا کر بیان کیا، لیکن پھر بھی بعض عرب ذرائع کے مطابق اسرائیل کے تقریباً 800فوجی اور شہری ہلاک ہوئے۔دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے اور 30کے قریب فوجی اغوا کئے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کے مقابلے میں اسرائیل کا جانی اور مالی نقصان بہت کم ہوا، لیکن اگر اسرائیل کی فوجی طاقت کو مدنظر رکھا جائے تو حماس کو توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔جنگ کی ابتداءمیں حماس کو جن شرائط پر جنگ بندی قبول کرنے کے لئے دباﺅ ڈالا گیا، حماس نے اسے قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔حماس کا نقطہ ءنظر یہ تھا کہ جب تک غزہ کا محاصرہ ختم نہ کیا جائے، تب تک کوئی جنگ بندی قبول نہیں کی جائے گی۔ بہرحال حماس اپنے اصولی اور مضبوط موقف کی بنیاد پر جنگ بندی کے لئے اپنی شرائط منوانے میں کامیاب رہی، اس جنگ کے لئے فریقین کے درمیان جو معاہدہ طے پایا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
معاہدے کے مطابق فریقین کے مابین یہ جنگ بندی مستقل ہوگی۔اسرائیل کی طرف سے غزہ کا محاصرہ فی الفور ختم کر دیا جائے گا۔اسی طرح مصر بھی ایک علیحدہ معاہدے کے تحت غزہ کا محاصرہ ختم کر دے گا اور اس سے غزہ کے علاقے کو آزادانہ تجارت کی سہولت حاصل ہو جائے گی۔ غزہ کے لوگوں کو چھ میل کی سمندری حدود میں ماہی گیری کی اجازت ہوگی۔ اس سے قبل یہ اجازت تین میل تک محدود تھی۔حماس کا مطالبہ یہ تھا کہ اسے بین الاقوامی قوانین کے تحت بارہ میل تک ماہی گیری کی اجازت دی جائے۔ معاہدے کے مطابق ان حدود میں بعد میں توسیع دی جا سکتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں حماس کے مطالبے کو تقسیم کرتے ہوئے غزہ کے علاقے میں بندرگاہ کی تعمیر کی جائے گی، جس کا غزہ کو بہت بڑا فائدہ ہوگا، اسی طرح غزہ کے علاقے اور مغربی کنارے سے گرفتارشدہ حماس کے لوگوں کی رہائی عمل میں آئے گی، اگر جنگ بندی برقرار رہی تو غزہ کے علاقے کی بحالی ترکی، قطر، یورپی یونین اور ناروے کے تعاون سے کی جائے گی۔
اس وقت اسرائیل نے اپنی حفاظت کے نام پر غزہ کی پٹی میں 300میٹر کی حدود میں آمدورفت ممنوع قرار دے رکھی ہے، جس کی وجہ سے غزہ کے لوگ مالکانہ حقوق رکھنے کے باوجود اپنی زمینیں زیر کاشت نہیں لا سکتے، اس معاہدے کے نتیجے میں یہ حد 100میٹر تک کر دی جائے گی، جس سے غزہ کے لوگ اپنی زمین کاشت کر سکیں گے۔ جنگ بندی سے اس معاہدے کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حماس اپنے وہ مطالبات منوانے میں کامیاب رہی، جن کا اسرائیل ماضی میں مسلسل انکاری رہا، یہ اس لئے ممکن ہو سکا کہ حماس نے اپنے اصولی، اخلاقی اور قانونی حقوق کو منوانے کے لئے ایک مضبوط موقف اختیار کیا۔اگرچہ غزہ کے لوگوں کا مالی اور جانی نقصان زیادہ ہوا، لیکن سیاسی، اخلاقی اور نفسیاتی لحاظ سے حماس کا پلڑا بھاری رہا، یہ اس وجہ سے بھی ممکن ہو سکا کہ اس جنگ میں حماس کی طرف سے داغے گئے میزائل اپنے ہدف اور فاصلے کے لحاظ سے پہلے سے کہیں بہتر تھے۔