1971ء میں لکھا گیا ایک خط

1971ء میں لکھا گیا ایک خط
 1971ء میں لکھا گیا ایک خط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے سامنے پنجابی کے گور مکھی رسم الخط میں لکھا ایک خط پڑا ہے، جس پر ڈاک خانے کی 2دسمبر1971ء کی مہر ثبت ہے۔ یہ خط ایک سکھ بیوی گُرچرن کور نے اپنے خاوند سردار بلونت سنگھ کو لکھا تھا جس کا نمبر 6625W84تھا اور وہ بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس کی اے۔کمپنی کا حصہ تھا اورحسینی والا (ضلع فیروزپور) کے قریب تعینات تھا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بلونت سنگھ کی ڈیوٹی کا علاقہ پاکستانی افواج نے فتح کر لیااور وہ اِس حملے کے دوران جان کی بازی ہار گیا۔
بہت سے اور پاکستانیوں کی طرح میرے دوست جاوید اقبال نے بھی فتح شدہ علاقوں کادورہ کیا۔ گُھومتے گُھماتے جب اُس جگہ پہنچے جہاں بلونت سنگھ کی لاش پڑی تھی تواُس کے سینے پہ دھرے ہاتھ میں پکڑے اِس پوسٹ کارڈ پر نظر پڑی۔ جنگ سے اُجڑے علاقے میں کسی پرانی لاش کا نظارہ کُچھ دِلکش نہیں ہوا کرتا، مگر اُس کے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے پوسٹ کارڈ میں نجانے کیا کشش تھی کہ جاویداقبال کے پاؤں جکڑے گئے۔۔۔ وہ سوچنے لگا۔۔۔’’یقیناًیہ کسی بہت ہی پیاری ہستی کی جانب سے لکھا ہوا خط ہو گا جو مرتے وقت بھی زیر مطالعہ رہا یاقابلِ دیدار سمجھا گیا‘‘۔۔۔شدت سے ایک اور خیال نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا۔’’آنے والے چند دِنوں میں جب اُس کی لاش کو ٹھکانے لگایا جائے گا تو یہ خط اِسی مٹی میں کہیں گُم ہو جائے گا۔۔۔کیوں نہ میں ہی اسے لے جا کر محفوظ کر دوں۔۔۔‘‘۔۔۔’’کسی فوجی( بھلے وہ دُشمن ہی ہو) کی لاش سے کوئی چیز اُٹھانا نامناسب ہے۔۔۔‘‘ سوچ کی ایک اور رو چل نکلی۔۔۔کافی سوچ بچار کے بعد اُس نے بالآخر خط کو ایک یادگار کے طور پراپنے ساتھ لیجانے کا فیصلہ کیا۔۔۔


عرصہ بیت گیا وہ اِس یادگار کو اپنے سینے سے لگائے رہے ۔۔۔کُچھ عرصہ قبل میرے ایک صاحبِ علم دوست جناب احسان باجوہ میرے ہاں آئے۔ باجوہ صاحب پنجابی زبان کے لاجواب سکالر ہیں۔ وہ اُردو، انگریزی، جرمن کے علاوہ پنجابی کے تینوں رسوم ا لخطوط کے ماہر ہیں۔اگلے روز منتخب احباب کے ساتھ اُن کی ایک نشست رکھی گئی، جس میں جاوید اقبال بھی شامل ہوئے۔ گفتگو کے بعد جاوید صاحب نے میرے ساتھ پہلی بار درج بالا خط کا ذکر کیا اوراس کے مندرجات کو جاننے کی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔مَیں نے باجوہ صاحب سے ترجمے کی گزارش کی۔جناب احسان باجوہ کاکیا گیا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔


’’آپ کی پیاری گُرچرن کور۔ پِھر میرے پیارے خاوند بلونت سنگھ کو میری طرف سے پیار بھری ست سِری اکال قبول ہو۔ یہاں پر سب سُکھ چین ہے، اور آپ کی خوشی خُدا سے مانگتی ہوں۔ مزید خبر یہ ہے کہ مَیں نے آپ کو چٹھی لکھی تھی، مگر آپ نے کوئی جواب تک نہیں دیا۔ کبھی تو آپ اوپر نیچے خط لکھتے ہی جاتے ہیں اور کبھی کبھار بالکل نہیں لکھتے۔ آپ جانتے بھی ہیں کہ مَیں دُکھ کو ذرا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔جب چند دِن خط نہ آئے، تو میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ یہاں سے تو آپ جالندھر ہی میں بہتر تھے، جہاں سے ہفتے بعد آ تو جاتے تھے، جو پیسے آپ نے بھیجے تھے، وہ جِن جِن کو ادا کرنے تھے، کر دئیے ہیں۔ سورن کے 30 روپئے دینے تھے وہ بھی گھر آئی تھی تو میں نے اُسے ادا کر دئیے تھے۔ کلونت نے لکھا ہے بھائی مجھے خط نہیں لکھتے۔ اگر آپ آ سکیں تو ایک رات کے لئے آ جائیں ، اگر آپ نہیں آ سکتے تو آپ مجھے پیسے بھیج دیں۔آپ کہتے تھے کہ آپ کے دوست نے کہیں جانے کے بارے میں پُوچھا تھا۔ اگر میں لِکھتی ہوں تو آپ جواب نہیں دیتے۔وہ مہندر سِنگھ کی چِٹھی تھی۔میں دوبارہ یہ لکھنے جا رہی ہوں کہ آپ ایک دِن کی چھٹی لے کر آنے کی ضرور زحمت کریں، اور میرے پاس سردیوں والے کپڑے نہیں ہیں، اگر آپ نے آنا ہو تو ٹھیک ورنہ میں یہیں سے لے لوں گی۔بے بے جی اور بابو جی کی طرف سے پیار قبول ہو، چچی اور چچا کی طرف سے پیار۔مہندر سنگھ اور گُربچن کور کی طرف سے ست سری اکال۔خط کا جواب جلدی دینا، اور ابھی تک بجلی والے نہیں آئے‘‘۔۔۔(خط کے آخر میں ایک پھول بھی بنایا گیاہے)

اس خط کو غور سے پڑھیں تو خوفناک حقیقتیںآشکار ہوتی ہیں۔ غُربت کی چکی میں پستی گُرچرن کور کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ لفافہ بند خط لکھ سکے، اُس بے چاری کو اپنے پیار ، اپنی مجبوریوں اور اپنے خالصتاًذاتی اور گھریلو حالات کے اظہار کے لئے بھی پوسٹ کارڈ کا سہارہ لینا پڑا ، جس میں لکھی ہوئی ہر چیز اخباری خبر ہوتی ہے جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔دسمبر آ چکا، مگر اُس کے پاس سردیوں والے کپڑے نہیں اور وہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ اُس کا محبوب شوہرآئے گا اور اُس کی یہ مُشکل حل ہو جائے گی۔۔۔اِس سب کے باوجود وہ شوہر کو لکھتی ہے کہ ’’یہاں پر سب سُکھ چین ہے اور آپ کی خوشی خُدا سے مانگتی ہوں‘‘ ۔ وہ اصلی پھول پیش کرنے کی ناتمام خواہش کو خط پہ پنسل کے توسط سے پورا کرکے اپنے جیون ساتھی کی جانگسل زندگی کو کسی قدر خوشگوار کرنے کی کوشش میں جُتی لگتی ہے۔


دوسری طرف پیارا خاوندبلونت سنگھ نہ تو گُرچرن کور کی خواہش پر چھٹی جا سکا اور نہ ہی اُس کے مسائل حل کر سکا ،جس کا احساس اُس کے حواس پہ اِس قدر طاری تھا کہ مرتے وقت بھی بیوی کا خط اُس کی آنکھوں کے سامنے اور دِل کے قریب رہا۔مجھے بارہا بھارت جانے کا موقع مِلااور وہاں نمایاں صنعتی ترقی کے باوجود عام بھارتی کی نمایاں تر معاشی بدحالی کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا اِتفاق ہواہے۔ میری اپنے بھارتی ساتھیوں سے بارہا اِس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے کہ دونوں قوموں کو اپنے محدود وسائل اپنے عوام کے لامحدود مسائل کو دُور کرنے کے لئے بروئے کار لانے چاہئیں۔ اصولی طور پر ہر عقلمند اس نظریے کو تسلیم کرتا ہے، مگرشائد بھارتی حکمرانوں کو اپنے مسائل کا حل اس میں نظر آتا ہے کہ عوام کے جذبات کو مشتعل کئے رکھو اور پاکستان سے محدود جنگ جاری رکھو۔


آج کے حالات اور سرحدوں پہ جاری تکلیف دہ گولہ باری کے نتیجے میں مارے جانے والے معصوم و بے گناہ لوگوں کے دُکھ درد نے 1971ء میں لکھے گُرچرن کورکے خط میں ’سُکھ چین‘ کے پیغام میں چُھپے گھمبیر دُکھ کو اور گہرا کر دیا ہے۔ اس بے چاری (جوشاید اب بھی کسی کوٹھری میں پڑی اگلی نسلوں کی خوشحالی کے ادھورے خواب دیکھ رہی ہو) کو تو یہ بتایا گیا ہو گا کہ اُس کا محبوب شوہراپنے وطن کی عظمت کی خاطر قربان ہو گیا۔ اُسے کیا خبر کہ بلونت سنگھ جان دیتے وقت بھی اپنے خاندان کو شدّت سے یاد کر رہا تھا اور شاید اُنہیں مزید مشکلات کی نذر کر کے سُرگباش ہو جانے کے خیال نے اُس کی موت کی تکلیف کو اور بڑھا دیا ہو۔ گُرچرن کور اور بلونت سنگھ جیسے کتنے ہی خاندان اور مہندر سنگھ اور گُربچن کور جیسے کتنے ہی پیارے بچے اِس خطے کے بے حس حکمرانوں کی ہوسناکی کی نذر ہو چکے۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لیا جائے اور گولہ بارود کے بھیانک اور اِنسانیت سوزکھیل کو ختم کر کے لو گوں کی آسودگی اور خوشحالی کی لہلہاتی فصل کو پنپنے کا موقع دیا جائے؟

مزید :

کالم -