دنیا کا وہ واحد ملک جہاں آپ جو سامان لے کر جائیں ہر چیز واپس بھی لیجانا پڑتی ہے اور دورے کے دوران حکومت کا ایک اہلکار ہر وقت ساتھ رہتا ہے، ایسا کہاں اور کیوں ہے؟ جانئے وہ حیران کن بات جو آپ کو معلوم نہیں

دنیا کا وہ واحد ملک جہاں آپ جو سامان لے کر جائیں ہر چیز واپس بھی لیجانا پڑتی ...
دنیا کا وہ واحد ملک جہاں آپ جو سامان لے کر جائیں ہر چیز واپس بھی لیجانا پڑتی ہے اور دورے کے دوران حکومت کا ایک اہلکار ہر وقت ساتھ رہتا ہے، ایسا کہاں اور کیوں ہے؟ جانئے وہ حیران کن بات جو آپ کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ غیر ملکی سیاحوں کو کھلی بانہوں کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے اور ملک میں قیام کے دوران ان کے خوب ناز اٹھائے جائیں تا کہ یہ بار بار واپس آئیں۔ اس عام روایت کے برعکس شمالی کوریا ایک ایس ملک ہے کہ جس کی سیر کو جانے والوں کے ساتھ ایسا عجیب و غریب سلوک کیا جاتا ہے کہ یہ دوبارہ لوٹنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
ابراہیم السرہان نامی ایک سعودی نوجوان بھی شمالی کوریا کی سیر کو گئے اور اس دوران ان کے ساتھ جو ماجرا پیش آیا اب اس کا احوال ساری دنیا کو سنا دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو شمالی کوریا کے ویزے کا حصول ہی ایک انتہائی مشکل مرحلہ ثابت ہوا کیونکہ ویزہ حاصل کرتے کرتے انہیں دو سال لگ گئے۔ شمالی کوریا روانگی سے ایک دن قبل انہیں بتایا گیا کہ وہ چینی دارالحکومت میں واقع ایک دفتر میں جائیں تاکہ انہیں شمالی کوریا کے قوانین سے متعارف کروایا جائے۔
متعدد مشکل مراحل سے گزر کر جب وہ شمالی کوریا پہنچے تو ائرپورٹ پر ہی انہیں ایک عجیب وغریب قانون کے بارے میں بتایا گیا، جس کے مطابق انہیں وہ سب سامان واپس بھی لے جانا تھا جو وہ اپنے ساتھ لے کر شمالی کوریا پہنچے تھے، ورنہ پانچ سال قید کی سزا کاٹنا ہو گی۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ تھی کہ حکومت کی جانب سے ایک اہلکار ان کے ساتھ تعینات کردیا گیا جو تمام قیام کے دوران ہر جگہ اور ہر لمحہ ان کے ساتھ رہا۔

’غیر ملکیوں کو اپنے ملک رقم نہ بھیجنے دو بلکہ۔۔۔‘ بڑے عرب ملک نے ایسے کام پر غور شروع کردیا کہ ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی نیندیں اُڑادیں
ابراہیم السرحان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ایسے ہوٹل میں قیام کی اجازت دی گئی جو صرف غیر ملکیوں کے لئے مخصوص تھا۔ وہاں ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرنیٹ جیسی سہولت کا نام و نشان بھی نہ تھا اور کسی اور جگہ قیام کی اجازت بھی نہ تھی۔ یہ ہوٹل ایک الگ تھلگ جزیرے پر واقع تھا جس کے اکثر حصے ویران پڑے تھے۔ ابراہیم نے بتایا کہ صحافیوں کو شمالی کوریا کے دورے کی اجازت نہیں اور ان سے بار بار پوچھا گیا کہ کہیں وہ صحافی تو نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہر لمحہ یہ دھڑکا لگارہا کہ محض شک کی بنا پر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتا تھا، جس کا انجام کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

مزید :

عرب دنیا -