کھلاڑی، مُلا اور نجومی۔۔۔ وزیراعظم کی نااہلی

کوئی بھی ملک جب سیاسی عدم استحکام اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوتا ہے تو عالمی سطح پر نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔دشمن قوتیں روز اول سے ہی مملکت خدادا کو معاشی طور پر تنہا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ،لیکن افسوس کہ ہمارے اپنے لوگ ہی ان کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت اقتصادی ترقی اور عالمی سطح پر ملکی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے جو ان دیدہ اور نادیدہ قوتوں کو ایک نظر نہیں بھا رہی ۔وہ ملک کو محب وطن اور مخلص قیادت سے محروم کر کے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو حزب اختلاف نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے پرمبارکبادیں بھی پیش کی گئیں۔وزیراعظم نے اپنے منشور کے مطابق ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا ۔ پہلے ہی سال میں اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے۔چین سمیت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں نے میاں نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی جو مخالفین کو ناگوار گزری اور پھر عین اس وقت ملک میں افراتفری پھیلا دی گئی جب چینی صدر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پاکستان آرہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ انتخابات کے ایک سال بعد ہی انتشار اور کشیدگی کیوں پھیلائی گئی؟وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو ایک ایسی قیادت سے محروم کرنے کوشش کی گئی جو پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اگست 2014ء میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ’’آزادی مارچ‘‘ اور عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری ’’انقلاب مارچ‘‘ کے نام سے اپنے اپنے لاؤ لشکر، فین کلب، پیروکاروں اور مریدوں کے ساتھ اسلام آبادکے ریڈزون کے ڈی چوک میں پڑاؤ ڈالتے ہیں اوروفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔اپنے سیاسی آقاؤں کی آشیر باد سے ’’امپائر کی انگلی اٹھنے‘‘کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دن رات پہلا اور اولین مطالبہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا ہی ہوتا ہے۔طوفان بدتمیزی اور دُشنام طرازی بھرپور طریقے سے ہوتی ہے، مقصد حاصل نہ ہونے پر سول نافرمانی کا اعلان کیا جاتا ہے، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پرچڑھ دوڑتے ہیں۔ تقریباً چار ماہ کے دھرنوں سے نہ صرف شہر اقتدار،بلکہ ملک میں معاشی، سماجی اور علمی سرگرمیاں مفلوج ہوکر رہ گئیں۔اقتصادی ماہرین کے مطابق دھرنوں سے کراچی سٹاک ایکسچینج میں تاریخ ساز گراوٹ دیکھی گئی اورمعیشت کو 100ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 126روزہ دھرنے کے بعدباآاخرہزیمت اور رسوائی ’’سیاسی کزنوں‘‘ کا مقدر ٹھہری اورپسپائی اختیار کرنا پڑی۔ناکامی پر بے بس سیاستدان ’’میاں صاحب جان دیؤ، ساڈی واری آن دیؤ‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبورہو گئے۔دھرنوں کے دوران فوج کے ’’ثالثی کردار‘‘ پر وزیراعظم کے قومی اسمبلی اجلاس کے خطاب کو بنیاد بنا کر ان کی نااہلی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ،مگرمایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
موقع کی طاق میں بیٹھے کم عمر سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 4اپریل 2016ء کو پانامہ لیکس آنے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی،جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔احتجاج کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی نااہلی کے خلاف ریفرنسز کی جنگ کا آغازکیا۔ایک موقع پر الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) سردار رضا خان نے سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل سے جب یہ استفسار کیا کہ پانامہ لیکس میں پاکستان کے وزیراعظم کا نام آیا ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ عوامی تحریک کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے میں نامزد ملزم ہیں اس لیے ان کو نااہل قرار دیا جائے جس پر الیکشن کمیشن نے اتفاق نہ کیا۔
پانامہ لیکس کی مستند دستاویزات اور ثبوت موجود نہیں۔اپوزیشن ریفرنس کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔پانامہ لیکس ’’پبلیسٹی سٹنٹ‘‘تو ہو سکتا ہے ،لیکن حقیقت نہیں۔پانامہ لیکس پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف متعدد ریفرنس معتبر اداروں میں دائر کئے گئے ہیں ساتھ ہی ان اداروں پر جانبداری کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اگر اداروں پر اعتبار نہیں تو ان کے دروازوں پر دستک دینے کی زحمت کیوں کی گئی، مرضی و منشا کے مطابق فیصلے آئیں تو ٹھیک ورنہ جانبداری کے الزامات۔ وزیراعظم کے خلاف آئینی و قانونی چارہ جوئی کے ساتھ عوام کو سڑکوں پر لانا قومی اداروں پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔ 3ستمبر 2016ء کوایک بار پھر سیاسی کزن عمران خان ’’احتساب مارچ ‘‘اور طاہرالقادری’’ قصاص مارچ‘‘ کرتے ہیں جبکہ راولپنڈی کے سیاسی نجومی اور ہر ماہ حکومت کے جانے کی فال نکالنے والے شیخ رشید نے ’’نجات ریلی‘‘ کا شوق پورا کیا ۔ اس کے باوجود ان تینوں سیاست دانوں کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا ۔ارادوں کی ناکامی پر اب عمران خان کو وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ جاتی عمرہ پر لشکر کشی کا اعلان کر چکے ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ 10ڈاؤننگ سٹریٹ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے وہاں پر جلسے جلوس کیے جا سکتے ہیں ۔اپوزیشن نواز شریف کی سرکاری رہائش گاہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کے سامنے احتجاج کے ساتھ ساتھ چڑھائی بھی کر چکی ہے۔ جاتی عمرہ وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ ہے اس پر لشکر کشی خون ریزی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جوملک و قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے جیالوں نے بھی بنی گالہ کی طرف مارچ کا عندیہ دے دیا ہے ، اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔
عمران خان کی محاذ آرائی،اوچھے ہتھکنڈوں اور سیاسی حربوں کا محور ایک ہی جملے ’’ظالما، وزیراعظم بنا دے‘‘ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ آئندہ انتخابات میں وزیراعظم بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے عمران خان کے پاس واحد آپشن میاں نواز شریف کی نااہلی کا ہے۔ اگر وزیراعظم اپنی مدت پوری کرتے ہیں تو یہ ایک آپشن بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا ۔ کیونکہ اگر میاں نواز شریف 2018ء تک وزیراعظم رہتے ہیں اور جمہوریت کا تسلسل جاری و ساری رہتا ہے تو اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہی ہو گا ۔علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چلنے والے ترقیاتی منصوبے بھی موجودہ حکومت کی کامیابی پر مہر ثبت کریں گے اوریہ تحریک انصاف کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ حکومت کے ان تمام عوامی اقدامات سے خائف عمران اینڈ کمپنی پانامہ لیکس کو آخری موقع سمجھ کر وزیراعظم کی نااہلی کے خلاف آخری حدتک جانے کے لئے کمر کس لی ہے، ،لیکن اب وقت بدل چکا ، عوام ذی شعور ہو چکے ہیں، وہ بار بار سیاسی شعبدہ بازوں کے دھوکے میں آنے والے نہیں۔
دوسری جانب مفاہمت کی سیاست کرنے والی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے اپنی سیاسی بقاء کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کے خلاف الیکشن کمیشن میں علامتی ریفرنس دائر کیا ہے ۔ دوران سماعت الیکشن کمیشن کے سربراہ نے پیپلزپارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسارکیا کہ پانامہ لیکس کے بارے میں جو ثبوت ہیں وہ پڑھ کر سنائیں تو انہوں نے کہا کہ وہ پڑھے نہیں جا سکتے جس پرجسٹس (ر) سردار رضا نے کہا کہ درخواست گزار سے یہ ثبوت نہیں پڑھے جا رہے تو عدالت ان ثبوتوں کو بنیاد بنا کر کیسے فیصلہ کرے گی؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘، پنجاب میں تو پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ، اس کا تنظیمی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے، خود کو زندہ رکھنے اور خبروں کی زینت بننے کے لئے ’’علامتی سیاسی سٹنٹ‘‘ تو کرنے ہی پڑتے ہیں۔اگر سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم، ماڈل گرل ایان علی اور عزیر بلوچ کے معاملات حل کرا دیئے جائیں تو پیپلزپارٹی جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں حکومت کا ہی ساتھ دے گی۔
وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنا اچھی بات ہے ،لیکن ان کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے عوامی خدمت کو شعار بنانا پڑتا ہے۔اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ذاتی انتقام اور رنجشیں بھلا کر آگے بڑھے اور ملکی تعمیر و ترقی میں حکومت کا ساتھ دے۔وزیراعظم میاں نواز شریف کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ان کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ مکار اور شاطر دشمن کامتحد ہو کر فولادی ہاتھ سے مقابلہ کیا جا سکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ، انسان اور معاشرتی اصلاح کے لئے دو طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اول تبلیغ او دوم تعزیر۔ اپوزیشن کوتبلیغ تو بڑی ہو گئی، کیا اب تعزیر کی باری ہے؟