’’ایٹ قائدز سروس‘‘ ایک جائزہ

’’ایٹ قائدز سروس‘‘ ایک جائزہ
’’ایٹ قائدز سروس‘‘ ایک جائزہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایٹ قائدز سروس ایک سفر ہے دریافت کی جانب ایک غیرمعمولی کاوش ہے پروفیسر رضی واسطی کی اور جناح رفیع فاؤنڈیشن کی کہ قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو زندہ رکھا جائے ۔ اُس ٹیم کی کوششوں سے جس کی قیادت امتیاز رفیع بٹ کر رہے ہیں۔

یہ دلکش کتاب اس راستے کو منور کرتی ہے جس راستے پر چل کر برصغیر کے مسلمانوں میں مسلم قومیت کا احساس جاگا اور انہوں نے قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت اور ان کے رفقاءِ کار کی بے لوث رہنمائی میں کام کرتے ہوئے تاریخ کا دھارا تبدیل کر دیا۔


پروفیسر سید رضی واسطی بے شک جدید دور کے مستند مفکر اور مؤرخ ہیں ۔ جدید اور قدیم تاریخ پر ان کی گرفت بلاشبہ ان کی کاوش کو حقیقی درجہ عطا کرتی ہے۔ ان کے کام کو شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب کلیرنڈن پریس نے ان کی کتاب ’’لارڈ منٹو اور ہندوستانی قومیت کی تحریک‘‘ شائع ہوئی ۔ ان کی بجا طور پر تعریف کی گئی جب انہوں نے مسلم قوم کی ارتقائی منزلوں کو آشکار کیا اور ثابت کیاکہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ برطانوی سامراج کے ایجنٹ نہیں تھے اور پاکستان برطانوی سرکاری ایجنڈا نہیں تھا جیسا کہ اشوک مہتہ اور اشوت پٹوردھن نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان انگریزوں کی پالیسی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو (Divide & Rule)‘‘ کا نتیجہ نہیں بلکہ مسلمانانِ ہند کی اپنی خواہش اور کاوش کا نتیجہ تھا۔ رضی واسطی نے بڑی عمیق تحقیق اور جانفشانی سے جناب رفیع بٹ کی زندگی کا جائزہ لیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے سچے ساتھی تھے جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی آزادی کی شمع روشن کیے رکھی۔ وہ رفیع بٹ کی نہایت قریبی رفاقت جو ان کی قائداعظمؒ کے ساتھ تھی کو اجاگر کرتے ہیں اور جناح رفیع خط و کتابت کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ یہ رفاقت کتنی گہری اور نتیجہ خیز تھی ۔ وہ تعارف میں بنیاد رکھ دیتے ہیں اور قاری کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے امتیاز رفیع بٹ نے جناح رفیع فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اپنے والد کی زندگی پر ریسرچ کی اور تحریکِ آزادی کے ایک گمنام مجاہد کو نا صرف دریافت کیا بلکہ ثابت کیا کہ یہ نوجوان صنعت کار قائداعظمؒ کے کیسے بے لوث اور کارآمد ساتھیوں میں سے تھے۔


اس کتاب کا باب ’’ جنوبی ہند کے مسلمان ‘‘ آگاہ کرتا ہے کہ کس طرح پنجاب مرکز نگاہ بن گیا جب رنجیت سنگھ نے 1780ء سے 1839ء تک یہاں حکومت کی اور کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے مکمل طور پر اسے 1849ء میں اپنے تسلط میں لے لیا اور پھر 1857ء کی جنگِ آزادی کے اثرات کیسے یہاں تک پہنچے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح نوعمری میں رفیع بٹ صاحب نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والد کی سرجیکل آلات کی صنعت کو سنبھالا جب اس فیکٹری میں فقط 12ملازمین کام کرتے تھے اور پھر اپنی محنت اور جدو جہد سے اسے اس مقام پر لے گئے جہاں کارکنوں کی تعداد 600ہو گئی ۔ سرجیکل آلات کی وہ فیکٹری اتنے عمدہ اور بین الاقوامی معیار کے آلات بنانے لگی کہ قائداعظمؒ نے اس نوجوان صنعت کار کی حوصلہ افزائی کے لئے 1946ء میں اس فیکٹری کا دورہ کیا۔ بہت جلد اس احساس کے ساتھ کہ مسلمانانِ ہند اقتصادی طور پر بہت پسماندہ ہیں اور انہیں پستیوں سے رفعتوں کی طرف لے جانے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔

رفیع بٹ نے اپنے کاروبار کو مختلف جہتیں دینے کا فیصلہ کیا اور جنوبی ہندوستان میں سنٹرل ایکسچینج کے نام سے پہلے مسلمان بینک کی بنیاد رکھی۔ یہ بینک ناصرف بے پناہ کامیابی سے ہمکنار ہوا، بلکہ مالی طور پر اتنا خوشحال ہوا کہ ایک سال میں اس بینک نے 5 فیصد ڈیویڈنڈ دینے کا فیصلہ کیا ۔

واسطی صاحب بڑی وضاحت سے تحریر کرتے ہیں کہ کس طرح رفیع بٹ صاحب پنجاب کی تاجر برادری ، کاروباری حضرات اور سیاسی قیادت کو ملاقاتوں اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعہ اس سطح پہ لے آئے کہ وہ پنجاب میں ایک تھنک ٹینک قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ واسطی صاحب ان کوششوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو رفیع بٹ نے ایک انگریزی روزنامہ نکالنے کے لئے کیں جو ہندو سازشیوں کے توڑ کے لئے ضروری تھا۔

قائداعظمؒ نے رفیع بٹ صاحب کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے انہیں چھ ممبران پر مشتمل مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کا بھی ممبر نامزد کیا اور ذیلی کمیٹی جو کان کنی اور دھات سازی کے لئے بنائی گئی تھی ،اسکا سربراہ بھی بنا دیا۔ رفیع بٹ صاحب اپنے حریف عبدالحمید کو ہرا کر 15جنوری 1946ء کو لاہور میونسپل کارپوریشن کے ممبر بھی منتخب ہو گئے۔ جب انہوں نے اپنے مخالف کے 17ووٹوں کے مقابلے میں 28ووٹ حاصل کئے۔


حصولِ آزادی کے بعد پنجاب حکومت نے ان کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے پنجاب چیمبرآف کامرس کے عمومی اجلاس میں جو کہ 12ستمبر 1947کو ڈائریکٹر پنجاب انڈسٹریز کے دفتر میں ہوا ، اُنھیں ایڈوائزر منتخب کر لیا۔ اپنے رہنما،اپنے ہیرو،اپنے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے چند دن بعد ہی 26ستمبر 1948ء کو رفیع بٹ صاحب ایک المناک فضائی حادثے میں وفات پا گئے۔ یہ پاکستان کے لئے ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ انہیں ہمیشہ ایک نمایاں تاجر ، سچے محب وطن ایک ماہر صنعتکار ، قائداعظمؒ کے ایک جانثار ساتھی، ایک مشفق باپ اور ایک مثالی شوہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔


رضی واسطی صاحب نے بڑے مستند انداز میں بین الاقوامی حالات اور برِ صغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال پر اس کے اثرات کو قلم بند کیا ہے اس کتاب میں ان دستاویزات کو بھی شامل کیا گیا ہے مثلاً جناب محمد علی جناحؒ کی رفیع بٹ صاحب سے خط و کتابت ، سنٹرل ایکسچینج بنک کی دستاویزات ،آل انڈیا ٹریڈ ڈائریکٹری جو 1942ء میں شائع ہوئی ، اشتہارات جو اخبارات میں شائع ہوئے ،آل انڈیا مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی کی رپورٹس اور وہ تصاویر جو ابد تک اپنی یادیں اور اثرات قائم رکھیں گی۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب حقائق ، واقعات اور شخصیات کا ایک مخزن ہے۔ اس کاوش پر امتیاز رفیع بٹ کی ’’جناح رفیع فاؤنڈیشن‘‘ اور پروفیسر رضی واسطی بے پناہ ستائش کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

مزید :

کالم -