میں نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھا۔
’’اور دو دن تک کیا صائمہ انہی حرامزدوں کے چنگل میں پھنسی رہے گی؟‘‘میرا لہجہ خود بخود تلخ ہوگیاتھا۔
’’جناب عالی! اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں ایک لمحہ تاخیر نہ کرتا‘‘ محمد شریف نے سر جھکا لیا۔ میں اس کی مجبوری سمجھ رہا تھا لیکن اپنی جگہ میں بھی ٹھیک تھا۔ صائمہ کی جدائی کا ایک ایک لمحہ میرے اوپر بھاری تھا۔
’’خان بھائی! صبر کریں انشاء اللہ تعالیٰ بھابی محفوظ رہیں گی وہ بہت نیک اور پاکباز خاتون ہیں‘‘ محمد شریف نے میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے مجھے تسلی دی۔
’’ٹھیک ہے، آؤ چلیں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ہم سب گاڑی میں بیٹھ کر بنگلے پرچلے گئے۔ محمد شریف نے کچھ انتظامات کیے اور مجھ سے کہا۔
’’آپ عمران صاحب کے ساتھ ان کے گھر چلے جائیں۔ صبح انشاء اللہ میں آپ کو خوشخبری سناؤں گا‘‘ ہم دونوں وہاں سے عمران کے گھر چلے گئے۔ بچوں نے مجھے دیکھا تو بھاگ کر میرے پاس آگئے۔
’’ماما کہاں ہیں؟‘‘ مومنہ میری گود میں چڑھ کر بولی۔ رو روکر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ میرا دل بھر آیا قریب تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے۔ میں نے خود پر قابو پایا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بیٹا! ماما ہاسپٹل میں ہیں۔ وہ بیمار ہیں نا اس لئے۔ دو دن بعد آجائیں گی‘‘ میں نے اس کے گال پر پیار کرکے کہا۔
’’میں نے ماما کے پاس جانا ہے‘‘ وہ مچلنے لگی۔ عمران کے بچے اسے بہلا کر باہر لے گئے۔ دونوں میاں بیوی دیر تک میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے بھابی نے سب بچوں کو کھانا کھلا دیا تھا ان کے بہت اصرار پرمیں نے بھی دو چار لقمے زہر مارکر لیے۔ کھانے کے بعد بچے سو گئے میں بھی بیڈ روم میں آگیا۔ ہم جب بھی عمران کے گھر قیام کرتے یہی کمرہ زیر استعمال رہتا۔ صائمہ مجھے کس قدر عزیز تھی اس کا پتا مجھے اب چلا تھا۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے وضو کیا نماز پڑھ کر میں دیر تک مصلے پر بیٹھا صائمہ کی سلامتی کی دعائیں مانگتا رہا۔ آنسو میری آنکھوں سے لگاتار جاری تھے۔ ملنگ نے کہا تھا اگر رونا ہے تو اس غفور الرحیم کے آگے سر سجدے میں رکھ کر روؤں۔ میں بے اختیار سجدے میں چلا گیا۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔
’’اے دو جہاں کے مالک ! میری سیاہ کاریوں کی سزا میری معصوم بیوی کو نہ دینا‘‘ رونیا ور دعا مانگنے سے میرے دل کو سکون ملا۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ میں نے نماز تہجد ادا کی۔ کہیں پڑھا تھا اس وقت اللہ پاک پکارتاہے۔
’’ہے کوئی جو میری رحمت کا طلبگارہو؟‘‘
دیر تک میں پاک رب ذولجلال کے سامنے گڑ گڑاتا رہا۔ دل کو سکون ملا تو مجھے نیند آگئی کسی قدر مہربان شے ہے نیند بھی۔۔۔انسان کو غموں سے چھٹکارا دلا دیتی ہے۔ صبح مومنہ کے رونے پر میری آنکھ کھلی۔ جاگتے ہی صائمہ کو یاد کرکے بے اختیار میرے منہ سے آہ نکل گئی۔ مومنہ کا رو رو کا براحال تھا۔ وہ صائمہ سے بہت اٹیچ تھی۔ صبح اسی کے ہاتھ سے ناشتہ کرتی۔ آج اسے نہ پراکر وہ مچل گئی تھی۔ احد خان بھی جاگ گیا تھا اور چپکے چپکے رو رہا تھا۔
’’بابا۔۔۔میری ماما کو لے آئیں پلیز میں۔۔۔‘‘ احد بھی رونے لگا۔
دونوں بچوں کو چپ کراتے کراتے میری آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر گئیں۔
’’صائمہ تم کہاں ہو خدا کے لئے آجاؤ میں دوبارہ کوئی غلطی نہیں کروں گا۔۔۔میرے خدا! مجھے صائمہ سے ملا دے۔۔۔معصوم بچوں پر رحم کر میرے معبود۔۔۔! ان کو ان کی ماں سے ملا دے یا اللہ! تم ہر چیز پر قادر ہے میری کوتاہیوں کی سزا ان معصوموں کو نہ دینا میرے مالک‘‘
میرا دل رو رہا تھا۔
آنکھیں رو رہی تھیں۔
ہم تینوں رو رہے تھے۔
نازش جاگ گئی تھیں انہوں نے جب بچوں کے رونے کی آواز سنی تو اندر آگئیں۔ پیار سے انہیں گلے لگایا اور چپ کرانے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تھوڑی دیر وہ انہیں ساتھ لگائے بیٹھی رہیں پھر پیار سے انہیں سمجھاکر ساتھ لے گئیں۔ چونکہ ہم اکثر عمران کے گھر آیا کرتے اس لئے بھی بچے نازش سے مانوس تھے۔ ناشتہ ہم سب نے اکھٹے کیا۔
’’خان بھائی! آج آپ چھٹی کر لیں۔ بھابی کے نہ ہونے سے بچے اداس ہو جائیں گے‘‘ عمران نے مجھے مشورہ دیا۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ عمران کے جانے کے بعد میں بچوں کو گاڑی میں گھمانے لے گیا۔ ایک سٹور سے بسکٹ ، چپس، کولڈ ڈرنک وغیرہ لے کر ہم ایک چھوٹے سے پارک میں آگئے۔ وہاں جھولے لگے ہوئے تھے۔ دونوں بچے کھیل میں مگن ہوگئے اور میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
’’نہ جانے صائمہ کس حال میں ہوگی۔ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہوگیا تو ۔۔۔اللہ نہ کرے‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میں بار بار اپنے ذہن کو جھٹک کر ان خیالت سے چھٹکارہ حاصل کرتا لیکن دوسرے لمحے وہ میرے پھر میرے ذہن پر حملہ کر دیتے۔ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ملنگ چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ لیے میرے پیچھے کھڑا تھا۔ میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’باباجی۔۔۔!‘‘ میری آواز رندھ گئی۔ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے خلا میں نظریں جمائے خاموش کھڑا تھا۔
’’بابا جی! صائمہ۔۔۔‘‘ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔
’’مرد بن۔۔۔مرد کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہا ہے؟‘‘ اس نے مجھے جھڑک دیا۔
’’تو تو بہت بہادر ہے، کسی سے نہیں ڈرتا۔ حتیٰ کہ ۔۔۔خدائے بزرگ و برتر سے بھی نہیں‘‘ اس کی غیض و غضب میں ڈوبی آواز آئی۔
’’لوگ جنات کا نام سن کر کانپ جاتے ہیں جبکہ تو اتنا دلیر ہے کہ ان کے ساتھ شب بسری کرتا ہے ۔ اپنی گھر والی پر کسی کی نظر پڑی ہے تو بلبلا اٹھا ہے؟‘‘ اس نے طنز کیا۔ میرا خیال تھا وہ میری دلجوئی کرے گا اور مجھے صائمہ تک پہنچنے میں مدد دے گا لیکن وہ تو میرا مذاق اڑا رہا تھا۔ کچھ دیر میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
’’بابا جی! اگر آپ میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں لیکن براہ کرم میرے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں‘‘ اس کے رویے سے میرا دل دکھ گیا۔
’’نمک حرام ۔۔۔تو کیا کرے گا؟ تو تو اس کا بھی وفادار نہیں جو تیری وجہ سے یہ مصیبت جھیل رہی ہے‘‘ اس کا لہجہ زہریلا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں میں جہنمی ہوں۔۔۔مجھے مر جانا چاہئے۔۔۔زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے مجھے‘‘ میں بری طرح جھنجھلا گیا۔ وہ کچھ دیر قہر نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ بچے جھولا جھول رہے تھے۔ جب ایک مجہول اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے میلے کچیلے شخص کو میرے پاس کھڑے دیکھا تو حیرت سے میرے پاس چلے آئے۔
’’ادھر آؤ میرے پاس‘‘ ملنگ نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔ مومنہ فوراً اس کے پاس چلی گئی۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا اور مومنہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ ملنگ کے منہ سے رال بہہ رہی تھی۔ خوراک کے ذرے اس کے داڑھی سے چپکے ہوئے تھے۔ میرے بچے صفائی ستھرائی کے معاملے میں اپنی ماں کی طرح حساس ہیں لیکن مجھے حیرت ہوئی مومنہ نے ملنگ کی داڑھی پکڑ لی اور اس سے کسی شیر خوار بچے کی طرح کھیلنے لگی۔ احد بھی اس کے گٹھنے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ ملنگ نے پھٹے ہوئے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور تسبیح کے دانوں جیسے سفید موتی نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیے۔ کچھ دیر انہیں منہ میں گھماتا رہا پھر انہیں ہتھیلی پر تھوک سمیت نکال لیا۔ سفید دانے سبز رنگ اختیار کر گئے تھے۔
اس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے ایک دانے کو پکڑا اور مومنہ سے منہ کھولنے کے کہا۔ اس نے جھٹ منہ کھول دیا۔ ملنگ نے دانہ مومنہ کے منہ میں ڈال دیا۔ مومنہ اسے بڑے مزے سے چباگئی۔ اس کے بعد اس نے احد کو دوسرا دانہ کھلا دیا۔ وہ بھی مزے سے کھا گیا۔ ملنگ کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے کچھ دیر وہ پڑھتا رہا پھر دونوں بچوں پرپھونک دیا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’تمہاری ماں بہت جلد آجائے گی‘‘ اس نے بڑی شفقت سے ان سے کہا۔ مومنہ تو کچھ نہ سمجھی لیکن احد نے اسے طرح سر ہلایا جیسے وہ ملنگ کی بات سمجھ گیا ہو۔
’’جاؤ جا کرکھیلو‘‘ اس نے بچوں سے کہا وہ اس کی بات مان کر دوبارہ جھولوں کی طرف دوڑ گئے۔
’’جا تو بھی کھیل۔۔۔تیرے ابھی کھیلنے کے دن ہیں۔۔۔۔جامن پسند کھیل کھیلنے میں لگ جا‘‘ اس نے پھر مجھ پر طنز کیا۔ میں جلدی سے اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا اور بے نیازی سے ایک طرف چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ بلا کی تیز رفتاری سے چلتا ہوا پارک سے نکل گیا۔ میں سر جھکائے بچوں کے پاس واپس آگیا۔ ملنگ کا آنا بے مقصد نہ تھا وہ ایک پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کھیل کر بچے تھک گئے۔ میرے پاس آکر انہوں نے واپس چلنے کوکہا۔
’’ماما کے پاس جانا ہے‘‘ مومنہ پھر رونے لگی۔ میں نے جلدی سے اسے اٹھایا اور احد کی انگلی پکڑ کر پارک سے نکل آیا۔ مومنہ کسی طور چپ ہونے میں نہ آرہی تھی۔ وہ بار بار ماں کے پاس جانے کی ضد کرتی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح بہلا پھسلا کر اسے چپ کرایا۔ اس کے من پسندکھلونے لے کر دیے۔ احد جو ہمیشہ کھلونے پا کر خوش ہوتا آج اس نے بڑی بے دلی سے کھلونے لے کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیے۔ اس کی معصوم آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ ان کی حالت دیکھ کرمیرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
کافی دیر انہیں مختلف جگہوں پر گھما پھر اکر ہم شام کے قریب واپس گھر گئے۔ گھر آکر ایک بار پھر مومنہ نے ماں کو یاد کرکے رونا شروع کر دیا۔ نازش نے بچوں کو اشارہ کیا وہ اسے پیار کرکے کھیلنے کے بہانے لے گئے۔ وقت کاٹے نہ کٹتا تھا۔ میں جلے پاؤں کی بلی کی طرح کبھی اندر کبھی باہر پھرتا رہا۔ بار بار صائمہ کا معصوم چہرہ میرے سامنے آجاتا۔ اس کی معصوم نظریں مجھ سے سوال کرتیں۔
’’فاروق! مجھے کس کے سہارے اکیلا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں سرجھٹک کر ان خیالات سے پیچھا چھڑاتا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ میرے سامنے آجاتی۔
فاروق! خدا کے لئے مجھے ان ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤ میں بہت اکیلی ہوں‘‘ میں گھبرا کر باہر آگیا۔
’’فاروق! تم تو کہتے تھے مجھے تم سے عشق ہے پھر مجھے کیوں اکیلا چھوڑ دیا‘‘ وہ بار بار مجھ سے سوال کرتی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں گھبرا کر اندر آگیا۔ ڈرائینگ روم میں بچھے صوفے پر بیٹھ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
’’فاروق! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز میری مدد کرو مجھے یہاں سے لے جاؤ‘‘ صائمہ کا چہرہ بندآنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔
’’میں آرہا ہوں صائمہ۔۔۔!میں آرہا ہوں‘‘ میں چیخ اٹھا۔ نازش بھاگ کر اندر آئیں۔
’’کیا ہوا فاروق بھائی؟‘‘ وہ میرے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔
’’کک۔۔۔کچھ نہیں‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے گا فاروق بھائی! آپ تو بڑے حوصلے والے ہیں۔ صائمہ بھی بہت نیک ہیں اللہ پاک ان کی حفاظت کرے گا‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دی۔ میں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ میرا حوصلہ جواب دے جائے گا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگوں گا۔ نازش باہر چلی گئیں۔ عمران نے انہیں ساری بات بتا دی تھی۔
’’فاروق بھائی!‘‘ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے کھڑی تھیں۔ صبح سے اب تک ایک کھیل بھی اڑ کر میرے منہ میں نہ گئی تھی۔ بچوں کو تو میں نے بازار سے کچھ چیزیں لے کر کھلا دی تھیں لیکن خود پانی تک نہ پیا تھا۔
’’ صائمہ نہ جانے کس حال میں ہوگی؟اس نے کچھ کھایا بھی نہ ہوگا‘‘ اس خیال نے مجھے کھانے سے باز رکھا۔ رات ہوگئی مومنہ تھوڑی دیر بعد رونے اور ماں کو یاد کرنے لگتی۔ شام تک اسے بخار ہوگیا۔ عمران اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ مجھے تو اپنا ہوش نہ تھا۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر88 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں