سپریم کورٹ کا رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک ہفتے میں تفصیلی فیصلہ جمع کرانے کا حکم
اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرنسز کی منتقلی کے معاملہ میں رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک ہفتے میں تفصیلی فیصلہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 10روز کیلئے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ روز شریف فیملی کے خلاف نیب ریفرنسز کی منتقلی کے معاملہ پر سماعت ہوئی۔ پراسیکیوٹر نیب نے بتایا ابھی اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ ایک ہفتہ میں تفصیلی فیصلہ جمع کرائیں۔ بتایا جائے کتنے دنوں میں تفصیلی فیصلہ آجائے گا۔ پراسیکیوٹر نیب نے بتایا ہمیں وقت چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو وقت کیوں چاہئے۔ وکیل نے بتایا شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز منتقلی کا تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا،رجسٹرار ہائیکورٹ ہمارے عدالتی حکم کی نقل ہائیکورٹ کے جج صاحبان کو پیش کریں اور ایک ہفتے میں فیصلہ نہ جاری کرنے کی صورت میں بتایا جائے مزید کتنا وقت درکار ہے۔دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف و دیگر کی سزا معطلی کیلئے دائر درخواستوں میں وکلاء صفائی کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو آئندہ سماعت پر انتہائی مختصر وقت دیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف و دیگر کی سزا معطلی کیلئے دائر درخواستوں پر گزشتہ روز سماعت ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا14سال ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے نیب سپیشل پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ نیب یہ پہلو مدنظر رکھے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے ٹرائل کورٹ بھی زیادہ سے زیادہ سزا سے متعلق مکمل رضا مند نہ تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ شواہد اور میرٹ پر نہیں جائیں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بات میرٹ اور شواہد کی نہیں مخصوص حالات کی ہے، نیب نے بھی زیادہ سے زیادہ سزا کے بغیر ہی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس حوالے سے عدالت کو اپنے نکتہ نظر سے آگاہ کریں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپنی باری پر آپ اس نکتے پر بھی ہمیں جواب دیں، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اگر میرٹ پر سننا ہے تو پھر اپیلیں سن لیں میں دستیاب ہوں، میں نے یہ نہیں کہا کہ دستیاب نہیں ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ٹرائل روکنے کے حوالے سے رضا مندی دے دیں، ہم نے خواجہ حارث کی درخواست کو معقول پایا، خواجہ حارث نے بتایا کہ ایون فیلڈ ریفرنس اثاثہ جات سے متعلق کیس تھا، ریفرنس میں معلوم ذرائع بتائے گئے نہ ہی اثاثوں کی مالیت۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق حقیقی ملکیت ثابت کرنا نیب کا کام نہیں۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ جب نواز شریف کے والد تھے تو لندن فلیٹس میں رہتے تھے، بعد میں نواز شریف بھی اسی فلیٹ میں رہتے تھے، فلیٹس کا قبضہ رضا مندی کے تحت تھا، نواز شریف کے خلاف معلوم ذرائع کا کوئی ثبوت نہیں، نواز شریف کو سزا اس بنیاد پر دی گئی کہ وہ جائیداد کے مالک ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف کی حدتک ثابت نہیں ہو سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔
سپریم/اسلام آباد/ہائیکورٹ
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکلاء کی کارروائی13 ستمبرتک کیلئے ملتوی کرنے کی استدعا کو مسترد کردیا۔احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک نے گزشتہ روز سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔سماعت کے موقع پر نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث ہائیکورٹ میں مصروفیت کی وجہ سے پیش نہ ہوئے۔خواجہ حارث کے معاون وکیل شیر افگن اسدی نے عدالت سے استدعا کی کہ کارروائی کو جمعرات تک کیلئے ملتوی کردیا جائے۔معاون وکیل شیر افگن اسدی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف و دیگر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر دلائل کی تیاری کے باعث خواجہ حارث پیش نہیں ہوسکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی اور بریت کی درخواستوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوتی ہے۔جس پر احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ یہاں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہی سماعت ہوتی ہے۔معزز جج کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے چھ ہفتوں میں ریفرنس نمٹانے کا حکم دے رکھا ہے اور دی گئی مدت ختم ہونے میں چار ہفتے باقی ہیں لہٰذا التواء نہیں دیا جاسکتا۔اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہمارے گواہ واجد ضیا جرح کیلئے موجود ہیں۔احتساب عدالت کے جج نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ میں ڈویژن بنچ دن 12 بجے سماعت کرتا ہے، خواجہ حارث صبح ساڑھے 9 بجے یہاں پیش ہو کر جرح کریں۔ساتھ ہی جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے، ایک طرف ہائی کورٹ کی ہدایات ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ کی، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آپ کی مرضی کی سماعت ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے نواز شریف کے وکلاء کی جانب سے جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
استدعا مسترد