امریکہ عمران خان سے کتنا خائف ہے؟
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دوسرے ممالک کے حُکمرانوں کا تہنیتی پعیغام بھیجنا سفارتی اور مُلکی روایات کے عین مُطابق ہے۔ ہر مُلک کی کوشش ہوتی ہے کہ نئے منتخب وزیر اعظم یا صدر سے اچھے روابط قایم کئے جائیں۔ نیک خواہشات کا اظہار کیا جائے اور اں مُلاقاتوں کے درمیان تعاون کی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ عمران خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے سعودی حکومت نے اپنے سفیر کے ذریعے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں مُلک کے ولی عہد اور خود بادشاہ نے عمران خان صاحب سے فٖون پر بات کی۔ یہ بات ہم سب کے لے اعزاز کہ بات ہے کہ کہ اقوامِ عالم میں اب بھی پاکستان کا وقار موجود ہے۔ دوسرے مُلکوں کو پاکستان مں اب بھی دلچسپی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نے غیر ضروری مسائل میں اُلجھ کر پاکستان کے اپنے مسائل کو بھُلا دیا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا مُلک مسائلستان بن چُکا ہے۔ لیکن قوموں کی زندگی میں ایسے موقع آتے رہتے ہیں۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سبق سکھیں اور اپنے آپ کو سُدھارنے کی مُخلصانہ کوشش کریں۔
نئی حومت پاکستان کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ہر حکومت کی طرح نئی حکومت کو سیٹ ہونے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیں وقت دینا ہوگا۔ اُن سے بھی غلطیاں ہو گی۔ ہمیں اُن کی کوتاہیوں کو در گُزر کر نا ہوگا۔ نئی حکومت کے بننے کے بعد سب سے اہم مُلاقات امریکی وزیر خارجہ کی قرار دی جا رہی ہے۔ امریکہ عمران خان کی پالیسیوں کو جاننے کے لئے مضطرب ہے۔ امریکہ کو نئی حکومت کے بارے میں کئی خدشات ہیں اور وُہ نہایت دھیمے انداز مین عمران خاں کے ساتھ چلانا چاہتی ہے۔ امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ عمران خاں پاکستان میں بہت مقبول ہیں۔ عوام اُن کے لئے بہت جذباتی ہیں۔ عمران خان کی وجہ شہرت کرکٹ کا گیم ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اپنی والدہ کے نام شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا کر ایک عظیم کار نامہ انجام دیا ہے۔ عوام نے اُنکی پُکار پر لبیک کہتے ہوئے بھاری مقدار میں چندے دئیے ہیں۔ آجکل شوکت خانم کینسر ہسپتال عمران خاں کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بیشک عوام کی مدد کے بغیر اِس منصوبے کی تکمیل نا مممکن تھی۔ لیکن عمران خان کے عزم و استقلال نے ایک نا ممکن منصوبے کو ممکن میں بدل دیا ۔ اس کام کو انجام دینا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں۔ لیکن انہوں نے کینسر ہسپتال کی تعمیر کرکے اپنے عزم کا لوہا منوا لیا۔کرکٹ کی دُنیا میں بھی انہوں نے اپنےُ پختہ ارادے سے ٹیم میں ایک نے روح پھونکی اور پاکستان کو کرکٹ کی دُنیا میں ممتاز مقام دلوایا۔ با الفاظِ دیگر پہلی بار ورلڈ کپ پاکستان کے ہا تھوں میں آیا۔ ورلڈ کپ کی فتح کا کریڈٹ پاکستانی ٹیم اور عمران خان کو جاتا ہے۔
تعلیمی میدن میں بھی اُنکی کوششیں قابل، داد ہیں۔ انہوں نے نمل جیسی یونیورسٹی کو پاکستان میں قایم کیا۔ جہاں سے طالب علم تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندان اور مُلک کے لئے ایک لا ثانی سرمایہ ثابت ہو رہے ہیں۔ان کارناموں کی بدولت ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خاں دھُن کے پکے ہیں۔ وُہ ارادے کو بدلنے کے ہرگز عادی نہیں۔ انھوں نے حالیہ سالوں میں کرپشن کے خلاف پاکستان مین جنگ لڑی اور انہوں نے یہ بات ثابت کر دی کہ سابقہ حکمران کرپٹ تھے۔اُن کو ناکام کرنے کے کئے حکومت وقت اور دوسرے دشمن عنصر نے ہر ممکن کوشش کی لیکن وُہ انے عزم پر روزِ اول کی طرح ڈتے رہے۔
عمران خان صاحب کے یہ سبھی اوصاف امریکہ اُسکے حواریوں کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ امریکہ نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے مُخالف ہونے کے باوجو پاکستان کی نئی حکومت میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ امریکہ کو ایران اور پاکستان کے گہرے روابط سے خطرہ لاحق ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ جائیں۔ کیونکہ پاکستان پہلے ہی سے ایٹمی طاقت ہے جبکہ ایران کے میزائل دُنیا میں سب سے خطرناک تصور کئے جاتے ہیں۔ دونوں مُلکوں کے ملاپ سے خطے میں امریکہ کے لئے نیا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ امریکہ افغانستاں میں طالبان کے ہاتھوں سخت پریشان ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کی مدد اور توسط سے امریکہ افغانستان سے باعزت نِکل جائے۔ امریکہ پاکستان پر دباو ڈال رہا ہے کہ وُہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔
پاکستان امریکہ کی مجبوریووں سے واقف ہے لیکن وُہ امریکہ کے ایماء پر افغا نستان میں مزید الُجھنا نہیں چاہتا۔ پاکستان پر ہر طرح کا دباؤ ڈالنے کے لئے ہر ممکن گُر استعمال کیا جار رہا ہے۔ امریکی کولیشن فنڈ کو روک کر ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو جھکانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عمران خان اپنے ارادے کے پکے ہیں انہوں نے واضع طور پر کہا ہے کہ پاکستان کسی نئی جنگ میں شامل نہیں ہو گا۔ ہم کبھی بھی کسی دوسرے مُلک کی جنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان سے یہ ضامنت حاصل کرکے دے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں پر حملہ نہیں کریں گے۔ پاکستان نے امریکہ سے پُرانے تعلقات کی وجہ سے امریکہ کو اس حد تک مدد کرنے کی حامی بھر لی ہے کہ وُہ طالبان کو مذاکراتی میز پر لے آئیں گے لیکن وُہ اُن پر کوئی شرائط مسلط کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں، طالبان اپنے مرضی کے طابع ہیں۔ لیکن امریکہ کو علم ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو افغانستان میں بہت کُچھ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں بھارت کا اہم رول رہا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے پاکستان فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر ا فغانستان میں کئی سال تک کام کیا ہے۔ لہذا وُہ پاکستان کی فوج کے صلاحیتوں سے واقف ہے اور وُہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر پاکستان چاہے تو وُہ طالبان سے کچھ بھی منوا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کی پسِ پشت طالبان کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے۔ اُن کو مُلک میں تربیت دینے کے علاوہ محفوظ ٹھکانے بھی فراہم کرتا ہے۔ طالبان افغانستان میں دہشت گرد کاروائیاں کرکے پاکستاں کی سر حد پر اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لیتے ہیں ۔لہذا نیٹو کی افواج پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتیں۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کی حالیہ مُلاقات عمران خان کے عزایم کو جاننے کی ایک کوشش تھی۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں آنے سے پہلے امریکی مخصوص ائیر کرافٹ کیریر کو وزٹ کیا تھا۔ جس کامقصد یہ ہے کہ وُہ امریکہ کے صدر کے حُکم پر کسی بھی مُلک میں حملہ کرکے اُسکی فوجی تنصیبات کو اُڑا سکتا ہے۔ اس جہاز میں پانچ سے چھ ہزار چوق و چوبند دستے لڑاکا ہوائی جہازوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ یہ اعلیٰ درجے کے فوجی ہر قسم کی جنگی تربیت سے لیس ہیں۔ جن کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود ہوتا ہے۔ وزیر خارجہ کا پاکستان آنے سے پہلے اس کیریر کو وزٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وُہ پاکستان کی حکومت کو باور کرواسکیں کہ اگر بات نہ مانی گئی تو پاکستان پر کسی وقت بھی حملہ کرنے کی پوزیش میں ہیں۔
قارئین نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ امریکی وزیر خارجہ کے آنے پر کوئی خصوصی پرو ٹو کال نہیں دیا گیا۔ بلکہ وزیر خارجہ کا رویہ مودبانہ نہ تھا۔ لیکن اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ امریکہ پاکستان کے آگے جھُک گیا ہے یا امریکہ نے ڈو مور کا تقاضا کرنا بند کر دیاہے۔ انہوں نے اب بھی ڈو مور کی رٹ لگائی ہے لیکن دھیمے انداز میں۔ عمران خان کے لئے ایسی مکارانہ چالیں سفارتی اعتبار سے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ امریکہ اور پاکستان میں عمران خان کے سیاسی مخالفین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وُہ عملی طور کس حد تک اپنے منصوبوں کو کا میاب کروا سکتا ہے۔کیونکہ عمران خان ہر قسم کی کرپشن سے ابھی تک پاک ہے۔ اگر وُہ پاکستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لیتا ہے تو امریکہ کے لئے افغانستان میں کامیابی حاصل کرنا مُشکل ہو جائیگا۔ کیونکہ امریکہ جانتا ہے عمران خان ذہنی طور پر طالبان کی سرگرمیوں کے حق میں ہے۔ وُہ نہیں چاہتا کہ طالبان پر نا جائز دباؤ ڈالا جائے۔ امریکہ عمران خان کی دبنگ شخصیت سے خائف ہے اور یہی اسکو پالیسویں پر نطر ثانی پر مجبور بھی کرسکتا ہے ۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔