اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 7

اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 7
اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 7

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہتے ہیں کہ سات برس تک حضرت حبیبؒ عجمی کے نفس نے گوشت کی خواہش کی۔مگر آپ نے نہ کھایا اور جب نفس نے بہت تنگ کیاتو مجبور ہو کر آدھا درہم لے کر بازار چلے گئے ۔اس میں سے آدھے کی روٹی لی اور آدھے کا کباب لے کر چل پڑے۔ناگاہ راستے میں کسی غریب کا ایک لڑکا ملا۔آپ نے اس سے پوچھا تو کس کا لڑکا ہے اس نے بتایا کہ اس کا باپ مرچکا ہے اور اس کا یہ نام تھا۔
اتفاقاً اس لڑکے کا باپ حضرت حبیبؒ عجمی کے جاننے والوں میں تھا۔آپ نے وہی روٹی اور کباب اسے دے دیا پھر افسوس کرتے ہوئے اپنے گھر واپس چلے آئے۔
***
ایک دفعہ حضرت مالک دینار ؒ کشتی میں سفر کر رہے تھے۔منجدھار میں پہنچ کر جب ملاّح سنے کرایہ طلب کیا تو فرمایا۔
’’میرے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر ملاّح نے بد کلامی کرتے ہوئے آپ کو اتنا زدو کوب کیا کہ آپ کو غش آگیا۔اور جب غشی دور ہوئی تو ملاح نے دوبارہ کرایہ طلب کرتے ہوئے کہا’’ اگر تم نے کرایہ ادا نہ کیا تو دریا میں پھینک دوں گا۔‘‘
اس وقت اچانک کچھ مچھلیاں منہ میں ایک ایک دینار دبائے ہوئے پانی کے اوپر کشتی کے پاس آئیں اور آپ نے ایک مچھلی کے منہ سے ایک دینار لیکر کرایہ ادا کردیا۔
مّلاح یہ حال دیکھ کر قدموں میں گر پڑا۔
اس واقعہ کی وجہ سے لفظ دینار آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔
***

اللہ والوں کے قصّے...قسط نمبر 6پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایک دن حضرت مالک دینارؒ کا کسی ملحد سے مناظرہ ہوا۔بحث کے دوران دونوں اپنے آپ کو حق پر کہتے رہے۔آخر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں کے ہاتھ آگ میں ڈلوائے جائیں اور جس کا ہاتھ آگ سے محفوظ رہے اسی کو حق پر تصور کیا جائے ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔دونوں نے ہاتھ آگ میں ڈال دیے مگر کسی کے ہاتھ کو بھی ضرر نہ پہنچا۔اس پر لوگوں نے فیصلہ کر دیا کہ دونوں ہی حق پر ہیں۔آپ اس پر بڑے کبیدہ خا طر ہوئے اور اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا ’’ ستّرسال میں نے عبادت میں گزار دیئے مگر دونوں ہی حق پر ہیں‘‘آپ اس بڑے کبیدہ خاطر ہوئے اور اﷲ سے عرض کیا کہ ستّر سال میں نے عبادت میں گزار دیئے مگر تو نے مجھے ایک ملحد کے برابر کر دیا۔ندا آئی کہ’’اے مالکؒ ! تیرے ہاتھوں کی برکت ہی سے ایک ملحد کا ہاتھ بھی آگ سے بچ گیا اور اگر وہ تنہا آگ میں ہاتھ ڈال دیتا تو یقیناًجل جاتا۔‘‘
***
ایک دفعہ رابعہ بصریؒ کے ہاں کئی دنوں سے کھانا نہیں پکا ۔کئی دن کے بعد جب کچھ ملا۔تو خادمہ کھانا پکانے لگی۔پیاز کی حاجت ہوتی۔تو اُس نے آپ سے اجازت چاہی۔کہ اگر حکم ہو تو کسی پڑوسی سے مانگ لاؤں۔
آپؒ نے فرمایا کہ زمانہ گذرا عہد کیے کہ کسی سے کچھ نہ مانگوں گی بلکہ خدا سے بھی نہیں مگر سوائے اس کی رضا کے۔آپ گفتگو ہی فرمارہی تھیں کہ اس درمیان میں ایک پرندہ چند پیاز کی گٹھیاں اپنے چُنگل میں لے آیا اور وہاں پر ڈال دیں۔حضرت مخدومہ نے ارشاد کیا ’’میں شیطان کے دام و تر دید سے غافل نہیں ہوں۔‘‘
اس پر پیاز کی گٹھیوں کو وہیں چھوڑ دیا اور صرف روکھی روٹی تناول فرمائی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)