معاشی مشاورتی کونسل سے نکالے جانے والے عاطف میاں کو بڑی حمایت مل گئی، مگر کس کی؟ انتہائی حیران کن خبر آگئی

معاشی مشاورتی کونسل سے نکالے جانے والے عاطف میاں کو بڑی حمایت مل گئی، مگر کس ...
معاشی مشاورتی کونسل سے نکالے جانے والے عاطف میاں کو بڑی حمایت مل گئی، مگر کس کی؟ انتہائی حیران کن خبر آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بوسٹن(نیوز ڈیسک) پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر معیشت ڈاکٹر عاطف میاں کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شمولیت کے خلاف اٹھنے والے طوفان کے بعد حکومت پاکستان نے تو انہیں کونسل سے نکال دیا مگر عالمی سطح پر بڑی تعداد میں ماہرین معیشت ان کی حمایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور نامور تُرک ماہر معیشت ڈانی راڈرک ڈاکٹر عاطف کی حمایت میں تحریک چلانے والوں میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عاطف سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک بیان تیار کیا ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین معیشت دستخط کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں ڈانی راڈرک نے اپنے ویب لاگ پر لکھا ہے:
”مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ پرنسٹن یونیورسٹی کے عاطف میاں، جو کہ فنانس اور مائیکرواکنامکس کے عظیم ترین سکالرز میں سے ایک ہیں، کو پاکستان کی اقتصادی مشاورتی کونسل سے محض ان کے عقیدے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ تیمور خان اور میں نے ایک بیان تیار کیا ہے، جس کے لئے دیگر کئی دوستوں کا تعاون بھی حاصل ہے جو عاطف میاں کے حامی ہیں۔ اس بیان پر پہلے ہی 90دستخط ہوچکے ہیں جن میں سے 26 پاکستانی معیشت دانوں کے ہیں اور 8 نوبیل پرائز حاصل کرنے والوں کے ہیں۔ کوئی بھی معیشت دان اس پر اپنے دستخط کا اضافہ کرنے چاہے تو ہمارے ساتھ رابطہ کرسکتا ہے۔“
ڈاکٹر عاطف کی حمایت کے لئے جاری کیا گیا بیان درج ذیل ہے:
”ہم، زیر دستخطی معیشت دان، یہ سمجھتے ہیں کہ عاطف میاں پاکستان اقتصادی مشاورتی کونسل میں ایک شاندار اضافہ ہوں گے۔ پروفیسر میاں اول درجے کے معیشت دان ہیں جن کی مہارت ڈویلپمنٹ اکنامکس، فنانشل اکنامکس اور مائیکرو اکنامکس میں ہے۔ ان کی اس مہارت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں شمولیت پالیسی سازوں کے لئے قیمتی ثابت ہوگی اور ان کی مشاورت پاکستانی عوام کی زندگی میں بہترین لائے گی۔ حکومت پاکستان کے ارکان نے ان پر دباﺅ ڈالا کہ وہ اقتصادی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیں۔ اس فیصلے نے حکومت کو ایک بہترین معاشی ٹیلنٹ سے محروم کردیا ہے۔ پروفیسر میاں کو ان کے عقیدے کے باعث استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے پر ہم مایوس ہیں اور اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ عقیدے کی بناءپر اس نوعیت کے امتیازی سلوک کا اس فیصلے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے کہ کون ملک کی بہتر طور پر خدمت کرسکتا ہے۔“