خواتین کو گالیاں دینے والے یہ کم ذات کون ہیں؟ 

خواتین کو گالیاں دینے والے یہ کم ذات کون ہیں؟ 
خواتین کو گالیاں دینے والے یہ کم ذات کون ہیں؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز شریف کی وفات کے بعد ایک بارپھر سوشل میڈیا کے جنونیوں نے مغلظات بکنا شروع کردی ہیں اور مجھے پہلی بار یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ کیا سیاسی اختلاف رائے ایک گندے مرض کا نام ہے ۔دیکھنا ہوگا سوشل میڈیا جیسی تلوار کہیں بندر کے ہاتھ میں استرے والی ضرب المثل پر توپوری نہیں اترتی ۔پہلے کلثوم نواز کی بیماری کو شریف برادران کاسیاسی بہانہ اور ڈرامہ لکھا گیا اور اب جب وہ اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں تو زبانیں پھر بھی دہن سے باہر لپک رہی ہیں،کیا یہ پاکستانی اور مسلمان ہیں جو ذہنی پسماندگی کے عادی ہیں اور گالی کے بغیر کوئی بات کرنا نہیں جانتے ۔انہوں نے گالی کو ہتھیار اور آخری حربہ بنارکھا ہے ۔مرحومہ کلثوم نواز شریف کی رحلت پر گالیاں بکنے والوں کو جواب میں وزیر اعظم عمران خان کی والدہ شوکت خانم پر کیچڑ اچھالتے دیکھ کر خون کھول اٹھا ہے اور ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے یہ صرف سوشل میڈیا پر حد سے بڑی آزادی کا نتیجہ ہے جو اب ہمیں شرمندہ کئے جارہا ہے یا ان لیڈروں کی بدزبانی کا شاخسانہ جنہوں نے سیاست میں خواتین کو گالیاں دینی شروع کی تھیں؟۔بیرسٹر اعتزاز احسن کے حوالے سے بھی ایک پوسٹ نظروں سے گزری ہے جو ایک سینئر صحافی نے شئیر کی ہے کہ انہوں نے ماضی میں محترمہ کلثومنواز کے بارے جو فضول باتیں کیں ،وہ اس پر شرمندہ ہیں۔لیجئے اس سے اس بات کاتو اندازہ ہوجاتا ہے کہ سیاستدانوں نے خواتین کے بارے نازیبا الفاظ بولے جوبالاخر ان کے ضمیر کا بوجھ بن گئے ،لیکن اس وقت تک تو زبان سے نکلا تیر دور جاچکا تھا ۔یہ بیرسٹر اعتزاز احسن ہوں یا رانا ثنا اللہ ،کوئی بھی ہو ں، ان کے کارکنوں نے ان سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر گالی کلچر کو اپنایا ہے ۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ’’ گرو جناں دے ٹپنے ،چیلے جان شڑپ‘‘ گویا گرو کی حرکتیں دیکھ کر اسکے چیلے ،اس سے چار قدم آگے ہی نکل کوئی حرکت کریں گے ناں۔اس بات کا تعین کرنے کے لئے کہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کو گالیاں دینے کا پہلا کام سیاستدانوں نے شروع کیا یا ان کے ورکروں نے ،بدزبانی کس نے پہلے شروع کی گویا اس کا تعین کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے انڈہ پہلے کہ مرغی پہلے ۔۔اب تو یہ سوچنا چاہئے کہ خاص طور پرخواتین کی کردار کشی کرنے کا عمل سوشل میڈیا پر شروع ہوچکا ہے اور یہ شرمناک حقیقت ہے ۔اسکا علاج کرنا چاہئے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو ،مریم نواز شریف،شیریں مزاری،کلثوم نواز ،بیگم ولی خان،حنا ربانی کھر،شیریں رحمن ،آپ کس کس معزز خاتون کا نام لیں گے جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر گند نہیں پھیلایا گیا ۔ سوشل میڈیا پر سائبر کرائم کے نام پر کچھ قوانین تو بن چکے ہیں اور تھورا بہت کنٹرول بھی کیا جانے لگا ہے لیکن اجتماعی طور پراسکو دیکھیں کہ جو لوگ خواتین کو گالیاں بک رہے ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت یا لیڈر کی ڈی پی لگا کر اکاونٹ کیوں چلا رہے ہوتے ہیں۔کیا وہ ان جماعتوں کے کارکن اور ایجنٹ ہوتے ہیں ؟بالفرض وہ جعلی اکاونٹ ہیں تو اسی جماعت کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ ایسے بدقماشوں کا حقہ پانی بند کردیں تاکہ دوسری جماعتوں کے سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو یہ مثبت پیغام چلا جائے کہ سیاست میں اختلاف کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ ھد چادر اور چاردیواری کہلاتی ہے ۔جسے کسی صورت پار نہیں کرنا چاہئے۔مجھے یقین ہے اگر میاں نواز شریف مرحومہ شوکت خانم کی کردار کشی کرنے والوں کو جھڑک دیں یا عمران خان مرحومہ کلثوم نواز کو برا بھلا کہنے والوں کو ڈانٹ دیں تو ایک بار سوشل میڈیا میں لازمی تبدیلی آجائے گی اور اس سے خود بخود اخلاقی ضابطہ اخلاق بھی موثر ہوکر ہر کسی پر لاگو ہوجائے گا کہ گالم گلوچ او رخواتین کی کردار کشی کرنے والے ہم میں سے نہیں نہ اُن میں سے ہیں لہذا جو بھی یہ حرکت کرے گا وہ اسکا خمیازہ بھی بھگتے گا ۔
اسلام میں گالی دینا سنگین جرم ہے ،ہمارے دین نے سکھایا ہے کہ کسی غیر مسلم کو بھی گالی نہیں دینی چاہئے حتیٰ کہ غیر مسلموں کے خداوں کو بھی گالی نہیں دینی چاہئے ،اللہ کریم نے سورہ انعام میں اس بارے واضح حکم ارشاد فرمایا ہے ۔اس ارشاد باری پر غور کریں تو انسان کی پوری نفسیات بولتی نطر آتی ہے ۔جب آپ کسی کو گالی دیں گے تو جواب میں آپ کو بھی گالی سننی پڑسکتی ہے ،جب دوسروں کے خدا کو برا کہوگے تو اپنے خدا کے بارے میں بھی بُرا سنو گے،تم میری ماں کو گالی دوگے یا بہن بیٹی کو، جواب میں دوسرا اس سے بڑھ کر اپنے پھیپھڑوں کا زور لگا کر ننگا ہوکر گالی دے گا ۔اسلام دین حکمت ہے ۔اسکی بنیاد میں اخلاقیات کا بہت مضبوط سیمنٹ لگا ہے۔ اسلام میں انسانی نفسیات کی کمزوریوں کو دیکھ کر ایسی حرکات سے روکا گیا ہے جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں تو جواباً ہمیں بھی وہی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں تو اس وقت ہمیں بہت غصہ آجاتا ہے اور ہم مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔پاکستانی سیاست میں گالی کلچر کو تبدیل کرکے ہی نیا پاکستان بنایا جاسکتا ہے اور اس کے لئے سب جماعتوں کو ایک ایجنڈے پر اکٹھا ہونا ہوگا کیونکہ مائیں بہنیں سب کی مشترکہ ہوتی ہیں تو اختلافی سیاست میں اخلاقیات کا معیار بھی سب کے لئے ایک سا ہونا چاہئے۔

۔

 نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -