موٹروے زیادتی کیس لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ سال صوبے میں کتنے ریپ کیسز درج ہوئے؟ ایسا انکشاف کہ کوئی بھی گھبرا جائے
لاہور (ویب ڈیسک) لاہور سیالکوٹ ہائی وے پر خاتون کے ساتھ عصمت دری کے واقعات کے بعد سے دو افراد، جنہوں نے مبینہ طور پر خاتون کا ریپ کیا تھا، کو تلاش کرنے کیلئے پولیس کی دوڑیں لگ گئی تھیں۔ ان کیسز میں یقیناً اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ درست اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے 12 جنوری 2016 کے بیان نے کم سے کم پنجاب سے متعلق عصمت دری کے اعداد و شمار پر روشنی ڈالی۔
گورنر پنجاب نے انکشاف کیا تھا کہ جب جنسی زیادتی کے واقعات کی بات آتی ہے تو پاکستان 10 بدترین ممالک میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب میں 14 ہزار 850 اغواءکے واقعات سامنے آئے جن میں خواتین، بچے اور نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔
روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں جنوری 2014 تا جون 2017پنجاب میں 10 ہزار کے لگ بھگ عصمت دری کے واقعات سامنے آئے۔ دو ہزار خواتین اغواءکی گئیں جن میں سے 80 فیصد کے ساتھ گزشتہ سال کے دوران مبینہ طور پر زیادتی کی گئی جبکہ ان میں سے 15 فیصد کو قتل کردیا گیا۔
مزید یہ کہ 980 بچوں کو اغواءکیا گیا جن میں اسپتالوں سے نومولودوں کے اغواءبھی شامل ہیں۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے دوران پنجاب میں 3 ہزار 881 ریپ کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔
یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کچھ سال قبل ہیومن رائٹس واچ نے انکشاف کیا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں ہر دو گھنٹوں میں جنسی زیادتی کا ایک واقعہ ہوا اور اجتماعی عصمت دری ہر ایک گھنٹے میں ایک پاکستانی خاتون کی عزت کو پامال کررہی تھی۔
گلف نیوز کی 12 مئی 2020 کی رپورٹ کے مطابق 2020 کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرم یا تشدد کے کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھا گیا۔