اپوزیشن مہنگائی پر کیوں خاموش ہے؟

اپوزیشن مہنگائی پر کیوں خاموش ہے؟
اپوزیشن مہنگائی پر کیوں خاموش ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نیپرا نے بجلی پھر مہنگی کر دی، ڈالر اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا،مہنگائی نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے،مگر اس کی حکومت کو فکر ہے اور نہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو۔حکومت مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لئے روزانہ نت نئے ڈرامے کرتی ہے۔ تازہ ترین ڈرامہ الیکشن کمیشن کے ساتھ حکومتی وزراء کا پھڈا ہے۔ایسی لڑائی اس حکومت سے پہلے کسی نے دیکھی نہ سنی،جب بھی حکومت نے کوئی عوام دشمن فیصلہ کرنا ہوتا ہے کسی واقعہ کی فلم چلا دیتی ہے۔اُدھر آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی کے نرخ بڑھا رہی تھی، تو اِدھر وزراء الیکشن کمیشن کی پنجابی محاورے کے مطابق پھٹیاں بھن رہے تھے۔ارے بھائی یہ ڈرامے بند کرو،عوام کی حالت دیکھو،اُن کے حال پر رحم کرو،حکومت نہیں چلتی تو ملک کی جان چھوڑو، عوام کی بددعائیں نہ لو۔ ابھی دو روز پہلے یہ سکینڈل سامنے آیا بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں عوام سے ہاتھ کر رہی ہیں،انہیں تیس دن کی بجائے، 37 دن یا زائد کا  بل بھیجتی  ہیں،جس سے یونٹس زیادہ صرف ہوتے ہیں اور سلیب بدل جاتا ہے۔ہمارے ملتان کی میپکو سب پر بازی لے گئی ہے،ہونا تو یہ چاہئے تھا اس خبر پر وزیراعظم فوراً ایک انکواری کمیٹی بٹھاتے،ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بناتے،جن سے زائد بل وصول کئے گئے ہیں انہیں پیسے واپس دلواتے،مگر ایسا وہ حکومت کرتی ہے جسے عوام کی کوئی فکر ہوتی ہے۔اس حکومت کا تو کام ہی عوام کے جسم سے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑنا ہے۔زائد دِنوں کی ریڈنگ کے بعد جو اربوں روپے کی اضافی آمدنی ہوئی ہے، حکومت اس پر کمپنیوں کے افسران کو تمغے تو دے سکتی ہے، سزائیں نہیں دے سکتی،کیونکہ سزا کے لئے صرف عوام کو ہدف بنا رکھا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا،مہنگائی کا یہ طوفان کب ٹلے گا، کب ختم ہو گا۔ادارہ شماریات کی اپنی رپورٹ ہے، پچھلے ماہ مہنگائی میں 13فیصد اضافہ ہوا۔ اب کوئی بتائے سال میں دس فیصد تنخواہیں بڑھانے والی حکومت کے دور میں ہر ماہ 13 فیصد اضافہ لوگ کیسے برداشت کریں گے۔


خیر حکومت تو اس معاملے میں بے حس ہو چکی ہے،لیکن یہ اپوزیشن کیا کر رہی ہے۔یہ پی ڈی ایم کس دنیا میں رہ کر اپنی احتجاجی تحریک چلائے ہوئے ہے۔اُسے یک نکاتی مہنگائی کے ایجنڈے پر تحریک چلانی چاہئے، آئے روز حکومت کو غیر آئینی حیثیت کے طعنے دینے والے اس حکومت کی دکھی رگ پر ہاتھ کیوں نہیں رکھتے۔سراج الحق ٹھیک کہتے ہیں،تینوں سیاسی جماعتیں بشمول پی ڈی ایم اندر سے ملی ہوئی ہیں۔اُن کا عوام کے خلاف اتحاد ہے۔سب کے کاروبار ہیں،سب کی چینی اور آٹے کی ملیں ہیں،سب کے سیمنٹ بنانے والے کارخانے ہیں، سب کی مہنگائی کے باعث پانچوں گھی میں ہیں،اس لئے مہنگائی کے ایشو پر یہ لوگ آواز نہیں اٹھاتے۔ پی ڈی ایم کیوں کال نہیں دیتی، بجلی مہنگی کرنے کے خلاف جمعہ کو ملک گیر احتجاج کیا جائے،کیوں ایک دھرنا مہنگائی کے خلاف نہیں دیتی، عوام اس بات کو نہیں جانتے انتخابات میں د ھاندلی ہوئی تھی یا نہیں،انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں یہ حکومت آئینی ہے یا کٹھ پتلی، وہ تو صرف اتنا جانتے ہیں اس حکومت نے تین سال کے عرصے میں عوام کو غریب  سے غریب تر کر دیا ہے، انہیں مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں ڈال کے زندہ درگور کر دیا ہے۔ وہ اس ایشو پر باہر نکلنے کو تیار ہیں،لیکن کوئی اُن کی آواز بننے کو تیار نہیں۔اپوزیشن رہنماؤں کے اس حوالے سے ہلکے پھلکے بیانات ضرور آ جاتے ہیں،مگر آج تک مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کوئی کال نہیں دی گئی۔یہ اپوزیشن اور پی ڈی ایم کی تحریک کا ایسا تاریک پہلو ہے، جو درحقیقت اُس کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے،کیونکہ عوام باقی باتوں کو نان ایشو کہتے ہیں،اُن کے نزدیک سب سے بڑا ایشو بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، جو روزانہ ایک عذاب بن کر اُن پر اُترتی ہے اور اُن کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیتی ہے۔


یہ بات تو طے ہے پی ڈی ایم حکومت کو اُس کی آئینی مدت سے پہلے گھر نہیں بھیج سکتی، ایسے حالات ہیں اور نہ پی ڈی ایم کوئی ایسا بڑا ڈیڈ لاک پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو حکومت کے خاتمے پر منتج ہو، بلاول بھٹو زرداری درست کہتے ہیں اگر پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے تو لانگ مارچ کرے، لانگ مارچ نہیں کرتی تو اسمبلیوں سے استعفے دے۔ یہ بھی نہیں کر سکتی تو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد دلائے،پیپلزپارٹی اُس کا ساتھ دے گی۔ پی ڈی ایم والے ان باتوں کا جواب یہ دیتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل گئے ہیں، اسی کی زبان بول رہے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم بھی اسٹیبلشمنٹ کی بات مان لیتی تو کئی مطالبات پورے ہو جاتے، لیکن ہم جمہوریت کی مضبوطی چاہتے ہیں،اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ پی ڈی ایم حکومت کو وقت سے پہلے گھر نہیں بھیج سکتی تو کم از کم اتنا تو کر سکتی ہے، مہنگائی سے ریلیف دلانے کے لئے عوام  کا ساتھ دے، ان کی آواز بنے، شہر شہر مہنگائی کے خلاف احتجاج کرے اور حکومت کو بجلی، پٹرول، گیس اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور کرے۔اس سے کچھ اور نہ سہی اتنا تو ہو گا حکومت نے بے لگام مہنگائی کی جو گنگا بہا رکھی ہے،اُسے روکنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس کا فائدہ پی ڈی ایم کو بالواسطہ طور پر اس طرح ہو گا کہ عوام میں اُس کی اہمیت بڑھ جائے گی،ساکھ میں اضافہ ہو گا۔اس وقت تو اُس کی تحریک کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ اقتدار سے باہر رہنے والے ماہی ئ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اُن کی خواہش یہی ہے کسی طرح اس حکومت کو گھر بھیج کے اقتدار حاصل کیا جائے۔
اِس وقت صاف لگ رہا ہے سیاسی اشرافیہ اور عوام کی دنیا ایک دوسرے سے یکسر جدا ہے،عوام غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں زچ ہیں اور سیاسی اشرافیہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہو یا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اُس میں ہمہ تن مصروف ہے۔ حکومت جس شعبے میں بالکل ناکام ہو چکی ہے،اُس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں،کوئی اسمبلی میں تحریک التوا پیش نہیں کرتا کہ مہنگائی کے موضوع پر بحث کے لئے اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔وہ سیاسی جماعتیں بھی جو اس وقت عوام کے مفادات کے لئے دعوے پر دعویٰ کر رہی ہیں، لایعنی مباحث میں الجھی ہوئی ہیں، ایک  زمانہ تھا حکومت کسی شے کے نرخ بڑھاتی تھی تو فوراً اسمبلی میں تحریک جمع کرا دی جاتی تھی، پریس کانفرنسیں ہوتی تھیں، احتجاجی جلسے جلوس ہوتے تھے،مگر اب تو سیاسی اشرافیہ نے اس پہلو کو بالکل بھلا ہی دیا ہے۔عوام کا اِس وقت صحیح معنوں میں کوئی پُرسانِ حال نہیں،حکومت اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا نزلہ عوام پر گرا رہی ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں،اور اپوزیشن اس معاملے میں اُس کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -