’انقلاب“ بیک فٹ پر
پتہ نہیں عمران خان کے ہینڈلرز کون ہیں لیکن اب انہیں خوف لاحق ہو چکا ہے کہ کریز سے باہر نکال کر چھکے چوکے مارنے کی کوشش میں وہ کسی بھی وقت سٹمپ آؤٹ ہو سکتے ہیں،کرکٹ کے میدان میں آؤٹ ہونے والا واپس پویلین میں بیٹھ جاتا ہے لیکن میچ میں موجود رہتا ہے، سیاست کے میدان میں آؤٹ ہونے والا یا تو ملک سے باہر چلا جاتا ہے یا گھر پر بے بسی کی تصویر بنا زندگی کے باقی دن پورے کرتا ہے اگر قسمت زیادہ خراب ہو تو جہانِ فانی سے کوچ بھی کر سکتا ہے، شائد اسی احساس کے بعد ”انقلاب“ اب فرنٹ کی بجائے زیادہ بیک فٹ پر چلا گیاہے۔ عمران خان کی تقریریں اب جارحانہ سے زیادہ مدافعانہ ہوتی جا رہی ہیں وہ کوشش کر رہے ہیں کہ جیل جانے اور نااہلی سے بچ جائیں، اب وہ فوری الیکشن کی بات نہیں کرتے، اس لئے یہ نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ اگر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہوتا تو وہ کبھی فوری الیکشن کے مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
وہ ہر جلسہ میں اعلان کرتے ہیں کہ اگلے جلسہ میں اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے لیکن اس میں بھی وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے سپورٹر کال کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ عمران خان کی تقریر صرف نعرہ بازی تک محدود رہتی ہے اور اب گوجرانوالہ کے جلسہ میں بھی یہی باتیں دہراتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن نہ ہوئے تو وہ زبردستی کرائیں گے، اسی طرح 2022 گذر جائے گااور یہ تو سارے پاکستان کو معلوم ہے کہ 2023 تو پہلے ہی سے الیکشن کا سال تھا اس میں عمران خان کا کیا کمال ہے وہ پانچ مہینوں سے سڑکوں پر ہیں لیکن کون سا وہ الیکشن پہلے کرانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ پہلے بھی الیکشن 2023 میں ہونے تھے اور اب بھی الیکشن 2023 میں ہی ہوں گے۔ زبردستی الیکشن کرانے والی بات صرف گیڈر بھبکی اور نعرہ بازی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ عمران خان ایک طرف عوام کو امریکی سازش اور ”حقیقی آزادی“ جیسے جھوٹے اور کھوکھلے نعروں سے بہلا رہے ہیں اور دوسری طرف امریکیوں سے مبینہ طور پرراز ونیاز اور خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔
پاکستان میں اس سے پہلے آئین اور قانون کی دھجیاں کسی نے اس طرح نہیں اڑائی تھیں جیسا عمران خان پچھلے پانچ مہینوں سے لگا تار اڑائے جا رہے ہیں اور قانون بھی ان ہی سے پوچھتا ہے کہ..... بتا تیری رضا کیا ہے۔وہ ایک نظیر قائم کرتے ہیں کہ عدالت میں پیش ہوئے بغیر گھر بیٹھے انہیں ضمانت بھی مل جاتی ہے جس کا تصور کسی بھی اور پاکستانی کے لئے نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی عمران خان لاڈلے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کی تفتیش میں شامل ہونا ہوکہا جاتا ہے کہ تھانہ میں بلانے کی بجائے تفتیشی افسر ان کے پاس بنی گالہ گھر جا کر تفتیش کر لے، اسی طرح اگر دہشت گردی مقدمات میں پولیس کی تفتیش میں شامل ہونے کا نوٹس ہو تو تھانہ جانے کی بجائے عمران خان سیاسی جلسہ کرنے گوجرانوالہ چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کا لاڈ پیار تو آج تک پاکستان کیا‘پوری دنیا کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملا تھا، لیکن دیکھتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ہے۔ایک دو نہیں بلکہ 25 کے قریب فوجداری مقدمات میں قانون کی یہی دھجیاں بالآخر عمران خان کے گلے میں پھنس جائیں گی۔
آج کل مائنس ون کی بازگشت ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے سنجیدہ معاملات اور مقدمات اتنے زیادہ ہیں کہ کسی نہ کسی مقدمہ میں گرفتاری اور سزا بھی ہو سکتی ہے اور ناہلی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ انہیں مائینس نہ کیا جائے تو وہ اچھا بچہ بن کر دکھا سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اچھا بچہ کسے بن کر دکھانا چاہتے ہیں اور انہیں بچانے کی ضمانت کون دے گا۔ اس سوال کا جواب ہر اس پاکستانی کو معلوم ہے جس نے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ پڑھی ہے یا اس کی سیاست اور حکومتوں کا مشاہدہ کر رکھا ہے۔اگر میرٹ، قانون اور آئین کی بات کی جائے تو ملبہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے نیچے سے باہر نکلا ہی نہیں جا سکتا لیکن ہمارے ملک میں میرٹ، قانون اور آئین تو رستم و سہراب کے گھر کی کھیتیاں ہیں۔ باقی سارے معاملات رہنے دیں صرف فرح گوگی کے معاملات ہی عمران خان کی سیاست دفن کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اسے کلین چٹ دے دی ہے۔ چوہدری پرویز الہی اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے دس اراکین صوبائی اسمبلی میں زیادہ تعداد چوہدری شجاعت حسین کی قیادت پر یقین رکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب دوبارہ سے مسلم لیگ (ن) کو واپس ملنے والا ہے۔ پنجاب گرفت سے نکل رہا ہے لیکن تاریخ کے پہلے عدالتی وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کا دھیان نہ سیلاب کے متاثرین پر ہے اور نہ پنجاب حکومت کو بچانے پر۔ ان کا سارا دھیان اس وقت کالے تیتروں، بٹیروں، سالم بکروں اور دیسی مرغوں کی خریداری پر ہے۔ بات صرف کالے تیتراور بٹیروں تک ہی محدود نہیں ہے، اللوں تللوں کا یہ عالم ہے کہ پرویز الہی حکومت جس کا دورانیہ ویسے ہی چند ماہ سے زیادہ کا نہیں ہے، 305 ملین روپوں سے 40 نئی گاڑیاں خریدنے جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے سیلاب میں 30 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے جس میں سات سے آٹھ ارب ڈالر(ڈیڑھ سے دو ہزار ارب روپے) کا نقصان پنجاب میں ہوا ہے۔ بھوکے ننگے، مصیبت زدہ، تباہ حال اور حکمرانوں کی بے حسی اور سفاکی کا شکارعوام کو ریلیف اور روٹی دینے کی بجائے چوہدری پرویز الہی حکومت چمکتی دمکتی درجنوں نئی گاڑیاں اور منوں ٹنوں کے حساب سے تیتر بٹیر اور سالم بکرے خرید رہی ہے۔ اپنے عوام پر ایسا ظلم تو ہٹلر جیسے ظالم حکمرانوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ پنجاب کے وزیر داخلہ صوبہ میں امن امان کی صورت حال بہتر بنانے کی بجائے ٹویٹ کر رہے ہیں کہ انہیں عمران خان کی لانگ مارچ کی کال کا انتظار ہے۔کریز سے باہر نکل کر کھیلنے میں سٹمپ آؤٹ اورزیادہ بیک فٹ پر جانے سے ہٹ وکٹ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان سٹمپ ہوتے ہیں یا ہٹ وکٹ....