فرقے نہیں مشترکات،ایک بار پھر!

فرقے نہیں مشترکات،ایک بار پھر!
فرقے نہیں مشترکات،ایک بار پھر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کافی عرصے کے بعد ملکی حالات اور مہنگائی کے طوفان میں پاکستان کی حدود کے اندر ایک نئے مسئلے کو اختلافات کی بنا پر اٹھایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی راقم الحروف کئی مرتبہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر یقینی سیاسی سماجی اور اقتصادی حالات کی بنیاد پرمحسوس کررہا تھا کہ ملک کے اندر اس خاموشی اور خوف کے عالم میں ایک طوفان برپا ہونے کا خدشہ ہے، جس کی ابتدا قومی اسمبلی کے  ایک فاضل ممبر نے ایوان میں  اس وقت کردی جب بہت ہی کم تعداد موجود تھی۔ ایوان میں بغیر کورم، بل کو پڑھے اور اس پر بحث کئے بغیر بل منظور کروایا گیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قسم کے بل کئی مرتبہ پہلے بھی آ چکے ہیں، جس پر متاثرہ فریق رد عمل دیتا رہا ہے لیکن اس شدت کو عوام نے پہلے محسوس نہیں کیا تھا۔ یہ بل ناموس صحابہ و اہل بیت کے نام سے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے منتخب فاضل ممبر قومی اسمبلی محترم عبدالاکبر چترالی نے پیش کیا۔ میں حیران ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے جماعت اسلامی کے کسی ممبر نے متنازعہ بل پیش نہیں کیا۔ جبکہ جماعت اسلامی نے اس متنازعہ قانون سازی کی مذمت کی اور نہ ہی اختلاف رائے دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد بل سینٹ کی طرف بھیج دیا گیا۔جہاں اسے بغیربحث کے منظور کیا گیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے تجویز دی گئی کہ مذکورہ بل کی کاپی فراہم کی جائے اور اسے کمیٹی میں بحث کے لئے بھیجا جائے، لیکن جیسے باقی کئی بل منظور کئے گئے، اسے بھی اسی عجلت میں منظور کرلیا گیا۔
جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں ہیجان پیدا ہوا ہے اور اس بل کی کھل کر مخالفت کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے بھی ناموس صحابہ کے حوالے سے کئی بل پیش ہوئے اور انہیں اسمبلی کے فلور سے پاس کروالیا گیا لیکن متاثرہ فریق نے اس بل کی مخالفت کی، اور بل قانونی شکل اختیار نہ کرسکے۔


میں ہرگز یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ پاکستان کی بڑی آبادی کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، یا ملک کوتشدد اور انارکی کی طرف دھکیلا جائے۔ نمائندہ قیادت حکومت اور ریاستی اداروں پر واضح کرتی رہی کہ اس بل سے ملکی سالمیت، اتحاد و یگانگت اورملی یکجہتی کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اداروں کے بڑے رہنماؤں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور آج حالات گلگت بلتستان میں انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں۔ پھر کسی طرف سے بھی کسی شرارتی اور بدامنی پیدا کرنے والے نے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کے لیے ماچس کی تیلی کو جلایا تو پھر یہ خطہ پرامن نہیں رہ سکے گا۔ ساری چیزیں میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہیں اور میں اس وقت سے خوفزدہ ہوں کہ دونوں اطراف کے افراد امن کی سرحدوں کو عبور کر کے ملک دشمن عناصر کی شہہ پر اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لئے امن و امان کے درپے ہوجائیں تو ملکی حالات کیا ہوں گے؟دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت چاہتا ہے کہ اقتصادی زبوں حالی، مالی مشکلات اور سیاسی بحران کے شکار پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پراپیگنڈہ کی یلغار سے اس حساس معاملے کو ہوا دی جا ئے۔اور تاثر دے کہ پاکستان کی ریاست کمزور ہوچکی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قسم کے حالات میں لشکر کشی اور حالات خراب کرنے والے لوگوں کو متنبہ کیا جاتا کہ یہ ایسا وقت نہیں ہے کہ اس غیر ضروری اور غیر اہم مسئلے کو اہم بنا کر ملک کے امن و امان کو برباد کیا جائے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سید المرسلین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مختلف مکاتب فکر موجود رہے جس کے اثرات پوری شدت کے ساتھ آج صدیوں بعد بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔ اب ایک مکتبہ فکر اپنے نظریات کو دوسرے پر مسلط کرے گاتو اس پر متاثرہ فریق اپنا رد عمل بھی دے گا۔ اس لئے مشترکات کو فروغ دیا جائے۔فالٹ لائنز پر باہمی احترام کو مد نظر رکھا جائے۔ ”اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور کسی کا عقیدہ چھیڑو نہیں“ کے اصول پر کام کرنا ہوگا۔ اسی ملک میں ملی یکجہتی کو نسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا گیا۔ جس کی وجہ سے تکفیری انتہا پسند تنہائی کا شکار ہوئے۔ اور سنی شیعہ اہل حدیث دیوبندی مکاتب فکر کی مذہبی قیادتوں نے ضابطہ اخلاق بھی تشکیل دیا۔ریاستی سرپرستی میں ’پیغام پاکستان‘ جیسی دستاویز تیار ہوئی۔ مگر پھر متنازعہ بل لاکر اتحاد و اتفاق کی فضا کو مکدر کرنے کی سازش کی گئی۔ جس کی وجہ سے ایک بار پھر اس وقت ملک میں فرقہ وارانہ فضا موجود ہے۔ جسے ٹھنڈا کرنے کے لیے چند تجاویز پیش کرتا ہوں:
1۔ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں کسی قسم کا کوئی متنازعہ لٹریچرچھا پا جائے اور نہ تقسیم کیا جائے۔خاص طور پر سوشل میڈیا پر ہونے والے توہین آمیز مناظرے اور گفتگو کو روکا جائے۔ اہل بیت رسولؐ، صحابہ کرامؓ اور ازواج مطہراتؓ کے بارے میں توہین آمیزمنفی پروپیگنڈہ پر پابندی عائد کر دی جائے۔


2۔ کسی بھی مصنف کی لکھی ہوئی اختلافی تحریر، یا متنازعہ بیان پرپابندی لگائی جائے اور پرنٹر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
3۔ متنازعہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل اور ملی یکجہتی کونسل میں نظر ثانی اور بحث کے لئے بھیجا جائے۔
4۔ ملت جعفریہ کو بل کے شق وار مندرجات پر اعتماد میں لیا جائے۔تحفظات کو دور کیا جائے۔توہین کی تعریف کو واضح کیا جائے۔ تاریخی حقائق بیان کرنے پر مشترکہ موقف اختیار کیا جائے۔ جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
5۔خاندان رسالتؐ کی توہین کو بھی جرم شمار کیا جائے۔ نگہبان رسالت حضرت ابو طالب اور والدین سیدالمرسلین پر کیچڑ اچھالنے والوں کے لئے بھی سزا تجویز کی جائے۔
ارباب اقتدار سے مودبانہ التماس ہے کہ ملک میں مسلکی بنیادوں پر کشت و خون اور بدامنی ہمیشہ ملک دشمن عناصر کی سازش رہی ہے۔ جس سے افواج پاکستان جو کہ ملکی جغرافیائی حدود کا تحفظ کر رہی ہیں اور ان میں وہ نوجوان جو اس باڑ کی حفاظت کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، ان کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں اندرونی امن کو قائم رکھنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امن قائم ہونے سے فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ ہم کسی غیر ملکی قوت کے اشارے پر پاکستان کی مضبوط بنیاد وں کو ہلا کر تو نہیں رکھ رہے۔ہمیں اپنی اپنی جگہ پر گریبان میں جھانک کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ملک دشمنی اور ملک میں افر تفری پھیلانے کی وجہ تو نہیں بن رہے؟ پھر ہمیں تائب ہو کر اپنے مثبت کردار کا تعین کرناچاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -