پارلیمان چلانے کے لئے کمیٹی کی تشکیل
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے پارلیمنٹ کی کارروائی بہتر انداز میں چلانے کے لئے 16 رکنی کمیٹی کے قیام کی قرارداد پیش کی جسے حکومت اور اپوزیشن بینچوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔یہ کمیٹی قومی اسمبلی کی حدود سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کرنے اور اُس کے بعد اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ خیز کارروائی کے بعد بنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 9 ستمبر کو اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اور شعیب شاہین کو گرفتار کر لیا تھا جبکہ رات گئے مبینہ طور پر قومی اسمبلی سے اِس کے بعض اراکین کو بھی گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے منگل کو ہونے والے اسمبلی اجلاس میں دعویٰ کیا کہ چند نقاب پوش افراد کالے رنگ کی آف روڈ گاڑیوں میں پارلیمان کی حدود میں داخل ہوئے اور اُس کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو گرفتار کر لیا گیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اِس پر کارروائی کی جائے گی،اگر اسلام آباد پولیس پارلیمان کی حدود میں داخل ہوئی ہے تو اُن کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائے گا۔اسی روز تمام گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کئے گئے۔ بدھ کو جب اجلاس شروع ہوا تو سپیکر نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں سکیورٹی کی ناکامی پر سارجنٹ ایٹ آرمز اور قومی اسمبلی کے چار دیگر سکیورٹی اہلکاروں کو چار ماہ کے لئے معطل کر دیا گیاہے،اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے متعلقہ ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔ سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے اجلاس کے دوران چارٹر آف پارلیمنٹ کرنے کی تجویز بھی دی،اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ایک جگہ بیٹھے یا نہ بیٹھے لیکن اراکین ِ پارلیمنٹ تواکٹھے بیٹھ سکتے ہیں، پارلیمنٹ کے وقار کے لئے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔
وزیر اطلاعات کی طرف سے کمیٹی کی قرارداد کو تو متفقہ طورپر منظور کر لیا گیا لیکن اُس سے پہلے اِس حوالے سے صرف قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ سینیٹ میں بھی خاصا ہنگامہ ہوا، حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو لتاڑتی رہیں،اراکین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ حکومتی بینچوں نے پی ٹی آئی کے سنگجانی جلسے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی گفتگو پر تنقید کی تو پی ٹی آئی اُس جلسے کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر شکوہ کناں تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وزیراعلیٰ پنجاب اور صحافیوں خصوصاً خاتون صحافیوں سے متعلق نا زیبا الفاظ ادا کئے، صحافتی تنظیموں نے اِس کی مذمت کی اور اُن سے معافی کا مطالبہ کیا،قومی اسمبلی کی کوریج کرنے والے رپورٹروں نے پی ٹی آئی کی کوریج سے انکار کر دیا، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اُنہیں یقین دلایا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا معافی مانگیں گے لیکن ایسا نہ ہوا، پہلے تو وہ غائب ہو گئے اور پھر پتہ چلا کہ وہ منظر عام پر آ چکے ہیں لیکن انہوں نے میڈیا سے کوئی بات چیت نہیں کی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پورنے بدھ کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدرت کی اور اپنے غائب ہونے کی وجہ سرکاری حکام کے ساتھ میٹنگ بتائی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی معافی مانگیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کے نزدیک علی امین گنڈا پور نے تو قوم کے جذبات کی ترجمانی کی اور اُن کے نزدیک علی امین کے بیانات پر معافی مانگنے والے بزدل اور ڈرپوک ہیں،اُن کو پارٹی میں ہونا ہی نہیں چاہئے۔ساتھ ہی اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی بھی فریق کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بھی بند کر دئیے اور کہا کہ انہوں نے چھ پارٹی رہنماؤں کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی اجازت دے رکھی تھی،یہ بھی اعلان کیا کہ 21 ستمبر کے جلسے کی اجازت ملے یا نہ ملے وہ لاہور میں جلسہ کریں گے۔
اِس وقت ملک میں عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو چکی ہے، پہلے ہی مسائل حل نہیں ہو رہے، اوپر سے آئے روز کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے، سیاسی عدم استحکام تو خواب ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کے جو منہ میں آتا ہے وہ بول دیتا ہے اور اِس پر افسوس بھی نہیں کرتا۔ سیاست اپنی جگہ، جذبات بھی اپنی جگہ لیکن اخلاقیات کا دامن ہرگز ہاتھ سے نہیں چھوڑا جانا چاہئے۔ماضی سے ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہئے، ایک دوسرے کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال مستقبل میں صرف اور صرف پچھتاوے کا سبب ہی بنتا ہے۔بانی پی ٹی آئی نہ صرف اپنے رہنماء کے عمل کو درست قرار دے رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مذاکرات کا راستہ بھی بند کر دیا،اِس طرح تو مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا تو وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے، ضد کرنے کے بجائے معافی کا راستہ اپنا لیتے۔ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی غور کرنا چاہئے کہ پارلیمان کی حدود سے کسی بھی رکن کی گرفتاری ایک گھمبیر معاملہ ہے،اِس کا فوری نوٹس لیا جانا چاہئے۔ یہ پارلیمان کی عزت و توقیر کی بات ہے۔ جو بھی بات ہے جو بھی گلے شکوے ہیں انہیں مل بیٹھ کر حل کریں نہ کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تگ و دو میں لگے رہیں۔
مذکورہ دونوں ہی اقدامات کی کسی صورت تائید نہیں کی جا سکتی۔اب پارلیمان نے کمیٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ سب اِس پر متفق بھی ہیں۔یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ جو بھی معاملہ ہے، جو بھی مسئلہ ہے اُسے آئینی طریقے سے ایوان میں بیٹھ کر ہی حل کرنا چاہئے۔ سیاسی قائدین کو بھی اسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے،اِس وقت تو اہل ِ سیاست کو آپسی تنازعات ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف عوام کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ملک میں نظام مفلوج ہوتا نظر آ رہا ہے،ہر شعبے میں معاملات خراب ہو رہے ہیں، مہنگائی میں خاطر خواہ کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی،کوئی ریلیف ملنے کی صورت نظر نہیں آ رہی،صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں، کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں اور جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اُنہیں بھی مشکلات کا سامنا ہے،سرکاری جامعات میں مسائل کا انبار ہے اور انہیں حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔اگر پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر ایک ہو سکتی ہیں تو اُنہیں عوام کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بھی فکر مند ہونا چاہئے بلکہ یہ اُن کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔عوام نے ہی انہیں ووٹ دے کر یہاں تک پہنچایا ہے اِس لئے اراکین پارلیمان پر لازم ہے کہ وہ اُن کی ترجمانی بھی کریں،اُن کے بارے میں سوچیں اور اُن کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے خود بھی کچھ مشکل فیصلے کریں،سارے ”مشکل فیصلوں“ کا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔