کسانوں اور محنت کشوں کے رہنما سید قسور گردیزی مرحوم
مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے خیر خواہ اورسیاسی وسماجی رہنما سید محمد قسورگردیزی 11 ستمبر1993کو جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔ ملتان کے ممتاز سیاسی رہنما روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز شائع کرنے والے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈکے ڈائریکٹر بھی رہے۔ قسور گردیزی پروگریسو پیپرز کے بانی میاں افتخار الدین مرحوم کے گہرے دوست تھے۔
سید محمد قسور گردیزی صاحب سے میری پہلی ملاقات روزنامہ تاجر ملتان میں منعقدہ تاسیسی اجلاس میں ہوئی۔ ملتان پہنچنے سے پہلے میری روزنامہ تاجر کے ایڈیٹر و پبلشر غلام محمد ملک سے بات چیت ہو چکی تھی۔ وہ لائل پور کے رہنے والے تھے اور ان سے میرے دوستانہ مراسم تھے۔انہوں نے مجھے بتا رکھا تھا کہ میں نے اخبار کے اجراکے سلسلے میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رکھا ہے جس میں ممتاز سیاسی رہنما سید محمد قسور گردیزی مہمان خصوصی ہوں گے۔آپ اس تقریب میں ضرور شرکت کریں۔ کمشنر ہاؤس سے فارغ ہو کر میں سدو حسام میں واقع ایک نئی تعمیر شدہ عمارت کی بالائی منزل میں روزنامہ تاجر کے دفتر پہنچا تویہاں غلام محمد صاحب نے مجھے شاہ صاحب سے متعارف کرایا۔ اس موقع پر سید محمد قسور گردیزی صاحب نے خطاب کے دوران مزدوروں، کسانوں اور دیگر پسماندہ لوگوں کے مسائل کا ذکر کیا۔مجھے ان کے خطاب نے بہت متاثرکیا۔چائے کی میز پر سید قسور گردیزی صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔یہ پچاس کی دہائی کا زمانہ تھا اور میں بھی لائل پور میں صحافت سے وابستہ ہو چکاتھا۔چونکہ غلام محمد صاحب میرا مفصل تعارف کراچکے تھے اس لئے شاہ صاحب نے فرمایا، میری لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتائیے۔ جب بھی ملتان آنا ہو میرے ہاں ضرور تشریف لایئے۔اس کے بعد سید قسور گردیزی صاحب سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
قسور گردیزی صاحب کے صاحب زادے زاہد حسین گردیزی کہتے ہیں 6 ستمبر 1965 کو سورج طلوع ہونے سے پہلے میں اپنے والد سید محمد قسور گردیزی اور والدہ کے ہمراہ لاہور جی او آر GOR میں واقع 21- ایکمن روڈ، پر میاں افتخارالدین کی کوٹھی میں خواب خرگوش میں تھا کہ اچانک پلنگ پر لیٹے ہوئے زلزلے کے سے جھٹکے محسوس ہوئے اور پھر وقفہ وقفہ سے کہیں بہت دور سے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے سب مکین بیدار ہوگئے ہر فرد سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ آوازیں گاہے گاہے ہلکی ھلکی دھمک کے ساتھ آتی رہیں اور پو پھوٹنے پر جب شہر لاہور کے مکینوں کے جاگنے کا وقت ہوا تو وہ آوازیں جو رات کی تاریکی میں قدرے نمایاں تھیں شہر کی چہل پہل میں دب گئیں۔
جناب زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ مجھ سمیت باقی لوگ بھی بے خوف ہو کر دوبارہ غنودگی میں چلے گئے۔ صبح ساڑھے سات بجے جب میاں صاحب کا ملازم کمرے میں ناشتہ دینے آیا تو والدصاحب کو سلام کے بعد بغیر پوچھے بتانے لگا کہ شاہ صاحب، ابھی باغبان پورہ سے، (جہاں میاں افتخارالدین کا زرعی رقبہ تھا اور آم کے باغات بھی) میاں صاحب کا گوالہ گھر دودھ دینے آیا تو ملازموں کو بتا کر گیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرحد پر واہگہ بارڈر سے حملہ کردیا ہے اور بھارتی ٹینک باٹا پور تک پہنچنے والے ہیں۔ اتنے میں ریڈیو پاکستان سے ایوب خان کی گرج دار تقریر“ میرے عزیز ہم وطنو‘ دشمن نے آج صبح پاکستانی قوم کو للکارا ھے۔۔۔“ نشر ہو گئی۔جلد ہی ایکمن روڈ کے حالات معمول پر آگئے اور ہمیں اس پر سکون گھر میں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ پاکستان کی سرحد پر کچھ انہونی ہو رہی ہوگی۔ البتہ ریڈیو پر ملی نغموں کا آغاز ہوگیا اور خصوصی نیوز بلیٹن میں صورت حال اور ایوب خان کی تقریر کے حصے نشر ہوتے رہے۔ بارڈر پاکستان پر پاک فوج کی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
6 ستمبرکو گھر والے عموماً والد صاحب کی سالگرہ غیر رسمی طور پر مناتے تھے اور ان کو مبارک باد دیتے تھے۔ یہ سلسلہ ہمارے بچپن سے جاری تھا۔ حسب معمول ناشتے کے بعد ہم تمام بچوں کی میاں صاحب کی بارہ کنال کی کوٹھی کے لانوں میں جھولوں پر کھیل کود شروع ہوئی تو اچانک دوپہر کے قریب لاہور کے آسمان پر جنگی جہازوں کی گڑگراہٹ نے چونکادیااور ہم خوف زدہ ہو گئے۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ 6 ستمبر1965 کا یہ تھوڑا سا منظر ان کے ذہن میں اب بھی نقش ہے جس میں اس دن کی مناسبت سے ہم قسور گردیزی کی سالگرہ مناتے تھے اور جب وہ اس روز بچوں اور گھروالوں کے درمیان ہوتے تھے تو وہ بھی اس گھریلو تقریب میں شامل ہوتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی اکثر سالگرہ ہم ان کی غیر موجودگی میں مناتے کبھی ان کی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اور کبھی ان کی جیل یاترا کے سبب۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ بالآخر 11ستمبر 1993 کو قسور گردیزی صاحب اس جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے اور انسانی اذیتوں، جیلوں، منافقتوں کی دنیا سے آزاد ہو کر خالق حقیقی کی پناہ میں چلے گئے۔
قسور گردیزی اپنی زندگی میں پاکستان کی شاہراہوں، عمارتوں، ترقیاتی منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں تو نہ لگوا سکے لیکن غریب اور پسماندہ عوام، فیکٹریوں اور کھیت مزدوروں اور محنت کشوں کے دلوں پر محبت کی مہر ثبت کر گئے جن کی بھلائی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی میں جدوجہد کی اور مصائب برداشت کیے۔
سید قسور گردیزی کا یوم پیدائش 6ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے نام سے منسوب کروا دیا اور ان کی وفات 11 ستمبر کو ہوئی جو قائد اعظم محمد علی جناح کے وصال کا دن بھی ہے۔ نمایاں کردا ریا تمام ترقی پسند پاکستانیوں کسانوں محنت کشوں کیلئے قسور گردیزی کی یاد منانے کیلئے پاکستان کی تاریخ میں 6 اور 11 ستمبر کو ریڈ لیٹر ڈے Red Letter Dayبنا دیا ہے۔
قسور گردیزی یہ کہتے ہوئے دنیا سے 11ستمبر 1993 کو رخصت ہوئے۔
ہر دور کا سقراط یہاں زہر بلب ہے
شاید یہی انسان کی عظمت کا سبب ہے
عیسٰی ہوئے ہر عہد میں مصلوبِ محبت
محبوب مسیحا ہے کہ مغلوب ِغضب ہے
تہذیب کا ہرشہر جلاتے رہے وحشی
نیرو ہے کے بدمست ہے اور محوِ طرب ہے
فرعون کو ہے اپنی خدائی کا تکبر
موسیٰ ہے کہ وہ غیب سے امداد طلب ہے
دربار ِیزیدی کے مناظر بھی وہی ہیں
اک سمت وہی قافلہ ء جان بلب ہے
حنبل ہے، گلیلوہے ہرنو یا فیوچک
اک سلسلہ رنج و رسن ایک ہی ڈھب ہے
منصور حسین ابن علی ہوں یا حنیفہ
اس سرمدی عشاق کا سردار لقب ہے
صدیوں سے تری بزم کو اک رزم ہے درپیش
کوئی بھی نہیں ہارتا یہ بات عجب ہے
طاقت کو کریں سجدہ یا پھر سچ کا بھریں دم
تا حال یہ نقطہ بھی تو تفصیل طلب ہے،
ہم اپنے مقدر کی شکایت نہیں کرتے
اپنے لیے ہر گام پہ اک حد ِادب ہے
ہر دور میں بالجبر کہا جاتا ہے غدار
قسور کبھی مجبور نہ پہلے تھا نہ اب ہے