پولیس کی متاثر کن کارکردگی

Sep 12, 2024

یونس باٹھ

جس قوم اور معاشرے میں محکمہ پولیس جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا جرائم اور بدعنوانیاں اس میں اتنی ہی کم ہوں گی،امن وامان اور حفظ و سلامتی اس میں اسی قدر زیادہ ہوگی،اِس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کی پولیس بالخصوص لاہور پولیس کا جائزہ لیں تو ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد تک بھی ہمارا محکمہ پولیس جوعوام الناس کے دل و دماغ میں اپنے متعلق کوئی مثبت اور لائق آفرین تشخص بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا،بہتر کمانڈنگ اور اقدامات کے پیش نظر آج محکمہ پولیس عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی طرف گامزن ہے۔ لاہور جو پنجاب پولیس کا چہرہ اور صوبہ بھر کی عکاسی پیش کرتا ہے یہاں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہمیشہ پولیس کی نااہلی تصورکی جاتی ہے اور بہتر اقدامات حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں نیوزچینل پر چلنے والی خبروں اور رپورٹس کے مطابق لاہور میں جرائم کی شرح میں ہمیشہ اضافہ قرار دیا جاتاہے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اگر جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہو تو اس کو بھی اس تناسب سے رپورٹ کیا گیا ہو جس طرح جرائم کی شرح میں اضافہ پر بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہیں۔پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور اور لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے،پنجاب سیف سٹی اتھارٹی (پی ایس سی اے) نے گزشتہ آٹھ ماہ کی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر کرائم برخلاف پراپرٹی بارے موصولہ کالز میں مجموعی طورپر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال رابری کی 15 کی کالز میں جنوری سے اگست کے درمیان گذشتہ سال کی نسبت 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں کی 15 کی کالز میں جنوری تا اگست کے درمیان 20 فیصد کمی دیکھی گئی، کاریں چوری کی وارداتوں میں 23 فیصد جبکہ موٹر سائیکلز چوری کی وارداتوں میں اسی عرصہ میں 20 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی، دیگر وہیکلز چھیننے کی وارداتوں کی 15 کی کالز میں 22 فیصد کمی واقع ہوئی، آٹھ ماہ میں کرائم برخلاف پراپرٹی کے رجسٹرڈ کیسز میں گذشتہ سال کی نسبت مجموعی طور پر 11 فیصد کمی واقع ہوئی، رواں سال ڈکیتی کے رجسٹرڈ کیسز میں گذشتہ سال کی نسبت 34 فیصد جبکہ رابری کے رجسٹرڈ کیسز میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال منشیات فروشوں کے خلاف گذشتہ سال کی نسبت 09 فیصد زیادہ مقدمات درج کئے گئے، گاڑیاں چھیننے کے رجسٹرڈ کیسز میں 23 فیصد، موٹر سائیکل چھیننے کے کیسز میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔اتھارٹی نے کرائم کالز کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کی مزید حکمت عملی وضع کرنے کے لیے اس ڈیٹا کو سرکاری اجلاسوں کا حصہ بنانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب کو رپورٹ بھیج دی ہے۔سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے کہا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کے ویژن کے عین مطابق منشایت فروشوں کے خلاف پولیس کو کریک ڈاؤن کا حکم دیا گیاہے۔ رواں سال منشیات فروشوں کے خلاف 6959مقدمات درج کر کے7171ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔مختلف کارروائیوں میں گرفتارملزمان کے قبضہ سے5137کلو چرس،233کلو ہیروین،128کلو آئس اور48052لیٹر شراب برآمد کی گئی ہے۔منشیات کی اسمگلنگ اور استعمال کو روکنے کیلئے ماڈرن ڈرگزکی خرید و فروخت اورآن لائن سپلائی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشنز جاری ہیں اور تعلیمی اداروں کے اطراف میں منشیات فروشوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پرسرچ اور کومبنگ آپریشنزکئے جا رہے ہیں۔بلال صدیق کمیانہ کے مطابق لاہور جیسے بڑے شہر میں موٹر سائیکل،کار اور دیگر گاڑیوں کے چھیننے اور چوری ہونے کی وارداتوں کو روکنا ایک چیلنج تھاجب سے اس شعبہ کو ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور کے سپرد کیا گیا ہے ان وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ڈی آئی جی عمران کشور کے مطابق ان کی ٹیم ایس پی اے وی ایل ایس ذاہد حسین رانانے گزشتہ 8ماہ میں وہیکل سنیچنگ، وہیکل چوری سمیت مختلف جرائم کے 8894 مقدمات چالان کرکے 930ملزمان کو جیل بھیجوایا ہے جبکہ 74 خطرناک گینگز کے162 ممبران کی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔8326 کاریں، 8100 موٹرسائیکلز اور 431 دیگر وہیکلز برآمد کیں۔اینٹی وہیکل سٹاف کے ایس پی ذاہد حسین رانا نے  1 ارب 76کروڑ 31لاکھ 15ہزار روپے سے زائد مالیت کی ریکوری کی۔54  اے کیٹیگری کے خطرناک اشتہاری مجرمان سمیت1231 عادی و عدالتی مفرور گرفتار کیے گئے۔13 ملزمان سے ناجائز اسلحہ جن میں درجنوں پسٹلز،سینکڑوں گولیاں برآمد، 2 مقدمات میں ملزمان سے بھاری مقدار میں مختلف قسم کی منشیات برآمد کر کے ملزمان کو جیل بھیجوایا جبکہ ان کی ٹیم کے اغواء برائے تاوان سیل ڈی ایس پی میاں انجم توقیر نے قتل کے مقدمے میں مطلوب انتہائی خطرناک اشتہاری ملزم محمد رضوان جس کی گرفتاری صوبہ بھر کی پولیس کے لیے چیلنج بنی ہوئی تھی اسے بھی گرفتار کیا ہے۔سی سی پی او لاہور کے مطابق آپریشنل پولیس کی کارکردگی بھی نمایاں رہی ہے جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز ٖفیصل کامران کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہری،مسلسل پٹرولنگ اور بہتر حکمت عملی سے لاہور پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ ہو گیا ہے اور آنیوالے دنوں میں اس میں مزید بہتری لائیں گے۔شہر میں بچوں کے اغواء اور دیگر مقدمات میں ملوث ملذمان کی گرفتاری کے لیے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن زیشان اصغر اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کی کارکردگی بھی حوصلہ اٖفذ رہی۔ انویسٹی گیشن پولیس نے رواں سال کے دوران871 بچوں کو بازیاب کروا کر ورثاء کے حوالے کیا ہے۔بازیاب ہونیوالوں میں 602 بچے اور 269 بچیاں شامل ہیں۔جبکہ باغبانپورہ انوسٹی گیشن پولیس نے زیادتی کے ایک خطرنال ملذم طیب کو بھی گرفتار کیا ہے۔ اگر ایک ضلع کی پولیس کی قیادت سے لے کر اہلکاروں تک اپنی جان پر کھیل کر دن رات شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں مصروف عمل ہے تو عوام پر پولیس کے حوالہ سے کیا حقوق فائز ہوتے ہیں؟۔ایسے ہی ہمیں محکمہ پولیس کو اپنا سمجھنا چاہئے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر سپاہ کے بہادر سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ لاہور پولیس کی قیادت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور مثبت سوچ کے حامل افسروں کا ہمیں بھی ساتھ دینا چاہیے۔ 

مزیدخبریں