سیاسی جماعتوں کی اشتہاری مہمیں اور ووٹر!
میرا خیال تو نہیں، لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی اشتہاری مہم تیار کرا چکی ہیں اور شاید محدود پیمانے پر کچھ نے الیکٹرانک میڈیا پر اپنی یہ مہم شروع بھی کرا دی ہے۔ عام طور پر یہ اشتہاری مہمیں ملک بھر کے ووٹروں کو متعلقہ سیاسی پارٹیوں اور اُن کے لیڈروں کے کارنامے یاد کرانے سے ہی متعلق ہوتی ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ خاص طور پر اشتہاری ایجنسیاں عوام کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ مزید برآں ان اشتہاری مہموں کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کے منشور کی ہر شق کو اُجاگر کیا جاتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ اگر ووٹروں کے بھرپور ووٹ لے کر برسر اقتدار آئے، تو اپنے عوام کے لئے دودھ کی نہریں بہا دیں گے اور پاکستان کو ترقی کے لحاظ سے دُنیا کی اولین صف میں لاکھڑا کریں گے....ان سیاسی پارٹیوں میں ایسی جماعتیں بھی ہیں، جو مل جل کر گزشتہ پانچ سال حکومت کر چکی ہیں۔ خاص طور پر شروع کے تین برسوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور کسی حد تک بلوچستان کی ساری کی ساری پارٹیاں، جبکہ آخری دو سال میں مسلم لیگ(ن) کی جگہ مسلم لیگ(ق) نے لے لی۔
اب اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کی کارکردگی جب مختلف ٹیلی ویژنوں پر دکھائی جاتی ہے، تو دیکھنے اور سننے والوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک چینل پر سندھ کے ایک ضلع قاسم آباد کا ذکر ہو رہا تھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ وہاں کا اکلوتا ڈسٹرکٹ ہسپتال عموماً ایسی حالت میں رہتا ہے کہ ڈاکٹروں کے کمروں کو تالے لگے ہیں، ایمرجنسی میں بھی حالات ایسے ہیں کہ کسی مریض کو وہاں طبی امداد ملنا بھی مشکل ہے، مزید یہ کہ اس کا بجٹ اپنا نہیں، بلکہ سارا عملہ دوسرے محکموں سے آیا ہے۔ اِسی طرح نہ تو پینے کے پانی کی کوئی سکیم ہے اور نہ ہی نکاسی ¿ آب کی، بلکہ جس راستے (یعنی ایک پُل دکھایا گیا) سے ضلع کے اندر، یعنی قاسم آباد میں داخل ہوتے ہیں وہاں برسوں سے گٹروں کا، یعنی نکاسی کا پانی کھڑا ہے اور آپ اس پانی سے گزر کر ہی اس شہر کو جاتے ہیں۔ رہا تعلیم کی سہولتوں کا حال تو ضلع کے نواح میں تقریباً 100 دیہاتوں میں طالبات کے لئے ایک بھی ہائی سکول نہیں، وہاں پر جن تھوڑے بہت ایم این اے صاحبان کے نام لئے جا رہے تھے، اُن میں سے اکثر کا تعلق ”جاموٹ“ فیملی سے ہے اور بعض خواتین بھی اس علاقہ سے براہ راست منتخب کرائی گئی تھیں۔
قارئین اس صورت حال کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ علاقہ جو پیپلزپارٹی کا گڑھ کہلاتا ہے، یہاں کے ایم این اے اور یہاں کی ڈسٹرکٹ حکومت کو سالانہ ایک ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لئے ملتے رہے ہیں، یعنی کم از کم پانچ ارب روپے تو گزشتہ پانچ برسوں میں وہاں دیئے گئے ہیں.... پروگرام دکھانے والے اب صرف یہی سوال کر رہے تھے کہ آخر یہ پانچ ارب روپے کہاں گئے ہیں؟ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اب اگر کسی اشتہار میں یا کسی لگائے جانے والے ہورڈنگ میں اس علاقے کی کسی بھی ترقی کی تصویر دکھائی جائے گی، تو عوام پر اِس کا کیا ردعمل ہو گا اور وہ ان اشتہارات یا ہورڈنگز کا کیا حشر کریں گے۔ اس کا بخوبی علم تو امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کو ہی ہو گا، لیکن تھوڑا بہت ادراک اس علاقے کی ایسی سیاسی پارٹیوں کو بھی کرنا ہو گا، جو گزشتہ پانچ برسوں میں وہاں ووٹ لے کر علاقے کی خدمت میں مصروف رہیں۔
عوام کو مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور تیل کے نرخوں نے ادھ موا کر رکھا ہے، اب ان میں صبر بھی کم ہو چکا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اب تمام وہ پارٹیاں جو پاکستان کے سو ڈیڑھ سو اضلاع میں کوئی کام نہیں کرا سکیں یا ضرورت سے کم کام کرایا ہے، وہ احتیاط برتیں اور اپنے جھوٹے کارناموں کی تفصیل ایسے علاقوں میں مت لے جائیں، جہاں کسی بھی قسم کے سخت ردعمل کا اندیشہ ہو۔پُرامن الیکشن ہی اس وقت قوم اور ملک کی ضرورت ہیں، لہٰذا سیاسی پارٹیاں اپنے گزشتہ کارناموں کی بجائے اگر اپنی اپنی اشتہاری مہم میں آنے والے پانچ برسوں کے لئے اپنے اپنے پروگراموں پر زور دیں تو زیادہ بہتر ہو گا، اس کے لئے اگر اشتہاری پوسٹروں یا ہورڈنگز میں تبدیلی بھی کرنا پڑے، تو وہ اس طور پر کی جائے کہ ووٹروں کے ردعمل کو سامنے رکھا جائے۔ آج تو لوگ اس پنکھے کے اشتہار پر بھی فوراً مارکیٹ میں جا کر اپنا ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں، جو ”چلتے وقت“ زیادہ آواز دیتا ہو، لہٰذا الیکشن2013ءکی تمام اشتہاری مہمیں ووٹروں کے ممکنہ ردعمل کو مدنظر رکھ کر تیار کی جائیں اور یہ بھی ہر گز خیال نہ کیا جائے کہ عوام محض ان کی بدولت اپنی رائے تبدیل کر لیں گے۔
ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چلو ایک دو پارٹیوں کی مہم کامیاب نہیں ہو گی، تو بھاڑ میں جائیں، کسی تیسری مہم سے ہی وہ عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہاں انقلاب آ جائے گا یا اِس قسم کے کسی ممکنہ انقلاب سے آصف علی زرداری کو دوبارہ صدر منتخب کرا لیا جائے گا، تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ صدر کے الیکشن میں تو ویسے بھی چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ پڑا ہے، ابھی تو پہلے آپ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تشکیل دے کر ہی آگے کا سوچنا ہے۔ ہر صوبے میں ووٹروں کی سوچ الگ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا میں لوگ اپنے من پسند لیڈروں کے ہورڈنگز اور کتبے لگا رہے ہیں، جبکہ سندھ میں الگ قسم کے پوسٹر دیواروں پر چسپاں کئے جا رہے ہیں، اسی طرح سے پنجاب اور بلوچستان میں ابھی امیدواروں کی فائنل، یعنی آخری لسٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ میدان میں کون کون سی پارٹیوں کے کتنے گھوڑے ہیں یا آزاد امیدواروں میں کتنا دم خم ہے۔ اس کے بعد 11مئی 2013ءکا میدان سجے گا اور کٹھن فیصلہ آخر لوگوں کے ووٹوں نے ہی کرنا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اب تک جو عوام کے لئے بویا ہے وہ اُسی کا ہی پھل کھا سکیں گے۔ یہ اشتہار وغیرہ انہیں بے وقوف نہیں بنا سکیں گے۔ ٭