پی پی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ نے بڑے جلسوں سے ہاتھ اٹھا دیئے
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی خان اور مرکزی رہنما غلام احمد بلور نے ایک ہی روز کہا کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ان کی جماعت انتخابی جلسے نہیں کر سکتی۔ ایسی ہی کچھ بات پیپلزپارٹی کی طرف سے کہی گئی، متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے ایک دو جلسے کئے گئے کہ جمعرات کو حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار برائے سندھ اسمبلی فخر الاسلام کو قتل کردیا گیااور اس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان نے قبول کرلی، اس سے پہلے طالبان کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی کہ پیپلزپارٹی ۔اے این، پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو جلسے نہیں کرنے دیئے جائیں گے۔ تحریک طالبان کے طریق کار کی وجہ سے یہ جماعتیں خوفزدہ ہو گئی ہیں۔ اور غیر معمولی حفاظتی انتظامات کے بغیر اب جلسے نہیں کرنا چاہتیں، نگرانوں سے حفاظتی انتظامات کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ ابھی گزشتہ روز اے ٹی وی کے لئے ریکارڈ کئے جانے والے ایک پروگرام کے دوران حلقہ این اے129 (لاہور) سے پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق ایم۔ این۔ اے شبیر میو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”ہماری جماعت نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں، اپنی قیادت کو کھویا اور سینکڑوں کارکن موت کی وادی میں اتر گئے اب مزید کسی بڑی قربانی سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے مکمل ترین حفاظتی انتظامات کے بغیر بلاول بھٹو زرداری کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا جاتا ہے ورنہ پارٹی میں اور باپ بیٹے کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہم سب ”ڈور ٹو ڈور کمپین“ کر رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے اجتماعات بھی منعقد کرتے ہیں۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف خود نگران وزیراعظم چل کر کوئٹہ پہنچے انہوں نے اپنے بلوچ بھائیوں سے کہا کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں، معقول حفاظتی انتظامات کئے جائیں گے منصوبہ بندی کر لی گئی ہے وزیراعظم کی اس یقین دہانی ہی کے پس منظر میں عسکری قیادت نے ایک بڑا اجلاس منعقد کیا یہ فارمیشن کمانڈروں کا اجلاس تھا جس میں سپہ سالار اعظم نے سب کو اعتماد میں لیا، دہشت گردی، سرحد پار سے دراندازی ،وادی تیراہ کی صورت حال اور عام انتخابات کے انعقاد پر غور کیا گیا۔ اطلاع یہ ہے کہ مسلم افواج نے فیصلہ کر لیاکہ انتخابات کے عمل کو پرامن بنانے کے لئے مکمل تعاون کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں سیکورٹی پلان پر بحث کی گئی اور اسے منظور کرلیا گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ متاثرہ جماعتیں پیپلزپارٹی، اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ نے انتخابات ہی میں یقین کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ فوج نے تعاون کا یقین دلایا، عدالت عظمیٰ عدالتی فعالیت کے ذریعے یہ اعلان کر چکی کہ عام انتخابات ضروری ہیں، یوں انتخابات کے التوا کی افواہیں پھیلانے والوں کو جواب تو ملتا ہے اور اسی ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف بھی انتباہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ تمام تر صورتحال کچھ زیادہ خوش کن نہیں، تحریک طالبان یا دوسرے گروہوں کو پاکستان میں مداخلت کرکے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ مسلمان مسلمان کو مار رہا ہو، اور پاکستان میں خلفشار ہو تو خود طالبان کی تحریک کو نقصان پہنچتا ہے اور اب تک ایسا ہوتا آ رہا ہے، مجبوراً مسلح افواج بھی جوابی کارروائی پر مجبور ہیں، کیا یہ بہتر نہیں کہ طالبان از خود مداخلت نہ کرنے کا اعلان کریں اور یقین دلائیں تاکہ لوگ پھر سے اپنی قیادت چن سکیں اور ان انتخابات کے نتیجے میں حالات بہتر ہوں گے تو طالبان سے بھی بات چیت ہو سکے گی۔
اطلاع یہ ہے کہ اہم سیاسی جماعتیں نگران حکومت سے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے مذاکرات پر آمادہ ہیں اور انتخابی مہم کو معمول پر رکھنے کو بھی تیار ہیں اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بڑے جلسے منعقد کرنے سے اجتناب کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال فی الحال برقرار ہے دیکھیں حفاظتی انتظامات کیسے ہوتے ہیں اور کیا یہ تحریک طالبان کی دھمکی کو بے اثر کر سکیں گے؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔