شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد سعید احمد ؒکے اخلاق حسنہ

شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد سعید احمد ؒکے اخلاق حسنہ
شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد سعید احمد ؒکے اخلاق حسنہ
کیپشن: m ahmad raza

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مقربین و محبین کے احوال سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے عمل صالحہ اور اس پر استقامت سے دنیا میں جنت بنا لی، پا لی۔ عمل کی بنیاد، اس پر استقامت کی چھت، جہد مسلسل کی دیواروں والی عمارت کو خلوص کے قمقموں سے منبع نور بنانے والوں کی طویل فہرست میں نمایاں نام شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ محمد سعید احمدقادری، رضوی جلالی رحمہ اللہ عنہ کا ہے جن کی فلاح بھری زندگی سے راقم الحروف اصلاح کا طلبگار ہے۔
اوکاڑا کی سرزمین میں عالم باعمل، زاہد کامل حضرت مولانا حسن محمد ؒ کے گھر سے تولد پھر تعلیم و تعلم کے بعد قال قال رسول کی صدائیں لگاتے ہوئے ڈسکہ سیالکوٹ، فیصل آباد اور پھر داتا کی نگری شہر لاہور پہنچے۔ یہاں لاہور میں 1980ءسے 2003ءتک حضرت موصوف نے اپنے عمل خیر ، ذکر کثیر ، تدریس و تقریر ، تبلیغ و تشہیر ، عجز و تقویٰ، اخلاق حسنہ حتیٰ کہ لین دین کے ہر معاملہ خوش اسلوب و خوب خلوص سے انجام دیا۔ ان کی اقتداءکرنے والے تلامذہ و اعزا، محبین و معتقدین اور متوسلین ، ان سے آگے صدر در صدر یعنی دیئے سے دِیا جلانے والوں کی لاکھوں میں جانیوالی تعداد اور سب کا ہر سال اپریل کے دوسرے اتوار عرس مبارک کی روحانی وجدانی تقریب کا شوق و جذبے سے انعقاد کرنا شیخ الحدیث حضرت محمد سعید احمد ؒ کی حیات جاوداں کی نوید ہے۔
وارث شاہ اوہ صدا ای جیوندے نیں
جنھاں کیتیاں نیک کمائیاں نیں
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق 
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
لڑکپن، جوانی اور پھر ادھیڑ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے اخلاق حسنہ کے رذائل و شمائل کے چرچے تو کمسنی سے ہونے لگے۔ دین سے فطری لگاو¿ نے حضرت موصوف کو اپنی عمر کے بچوں سے نمایاں کر دیا، اپنے والد گرامی جو خود عالم نکتہ داں تھے کا قرب پانا ، ان کے ادب بجا لانا اور اسی شوق شوق میں ابتدائی کتب کو ازبر کر لینا حضرت موصوف کا خاصہ تھا۔ایک بار حضرت کے ہم عمر و ہم جماعت اور قریبی رشتہ دار کی غلطی حضرت موصوف کے گلے پڑ گئی۔ یعنی اپنے حقیقی و روحانی والد گرامی سے اس پر مار پڑی لیکن اس پر انہوں نے بجائے شکوہ و شکایت کے استقلال و پامردی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اپنی مثال آپ بنا۔ آپ کی ملنساری، مہمان نوازی اور امانت داری کا تو زمانہ معترف ہے۔سن 70ءکے آخر میں موضع میرک ضلع اوکاڑا سے جب لاہور ہجرت کا فیصلہ فرمایا تو مقامی لوگوں میں کیا امیر کیا غریب، اپنے بیگانے سب الوداع کرتے وقت اشک بار و گریہ زار تھے۔ چشم فلک نے اس انس و خلوص کی ایک جھلک یہ دیکھی کہ ماو¿ں نے اپنے لاڈلوں کو حضرت موصوف کے ساتھ روانہ کر دیا کہ آپ انہیں تعلیم و تربیت یعنی دینی خدمت کے زیور سے آراستہ فرما دیں ۔
حضرت موصوف نے تکمیل سنت کے لیے تجارت فرمائی جس میں ”تخلقوا باخلاق اللہ“ کی روح غالب آئی۔ مخلوق خدا کی خیر خواہی اور بھلائی ہی حصے میں آئی۔ روایتی طریقہ تجارت کے بجائے ضرورت مندوں کو قرض دینے کی آسائش سے بھی پیچھے نہ ہٹتے بلکہ یہ جان لینے کے باوجود کہ فلاں سے مال کی واپسی کا کوئی امکان نہیں تو اس رقم کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دیتے۔ یہ بھی حضرت کا آداب بندگی تھا کہ رب کریم نے فرمایا: و اقرض اللہ قرضا حسنا(اور اللہ تعالیٰ کو(غریبوں کی حاجت روائی کی صورت) قرض حسنہ دو ) اور اس ہر صبر سے تمہیں بہترین اجر ملے گا۔
ساندہ کلاں لاہور کی جامع مسجد میں خدمت کے دوران دارالعلوم شیراکوٹ، رستم شاہ غازی، جامعہ برکاتیہ، جامعہ سراجیہ اور یہاں تک کہ قدیمی درسگاہ جامعہ نظامیہ اندرون لوہاری گیٹ میں تدریس کس درجہ خلوص سے فرمائی سب تاریخ کی تختی پر نقش ہے۔ دور دراز کے سفر اور اس کی بے حد تھکن کے باوجود استاذ الاساتذہ نے کبھی درسی اسباق سے غیر حاضری نہ ہونے دی ، فرائض کی پابندی کے علاوہ نوافل اوابین کی ادائیگی آخر عمر شریفہ تک رہی۔ ایک بار حج بیت اللہ اور عمرہ شریف کی سعادت سے مشرف بھی ہوئے۔
 خاندان یا عزیزوں میں کسی بھی خوشی یا غمی کی تقریب میں حضرت موصوف عشق مصطفیٰﷺ میں غرق ہونے کا عملی مظاہرہ یوں فرماتے کہ آنے والی نسل میں نعت گوئی کی ترغیب دیتے ہوئے سب کو اکٹھا کر تے ، ان سے سیرت رسولﷺ کے مختلف پہلوو¿ں پر کلام سنتے اور انہیں انعام سے بھی نوازتے تھے۔
اپنے قریبی عزیز کی انتہائی سخت طبیعت پر صرف خود ہی نہیں بلکہ اولاد و احباب کو رحمدلی اور دل گیری کی تلقین حضرت موصوف کی خوبصورت شخصیت تھی۔ ملنساری اور مہمان نوازی کے رموز حسنہ بھی کوئی شیخ الحدیث علامہ سعید احمد ؒ سے سیکھے کہ مخالف ہی نہیں متحارب سے بھی صلہ رحمی بلکہ اس خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ مدمقابل کے دل کی دنیا ہی بدل جاتی۔ عمر یا علم و تجربہ میں کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سب سے سلام لینے اور یہاں تک کہ تحائف پیش کرنے میں پہل فرماتے۔حضرت موصوف نے 2شادیاں فرمائیں ، زوجین میں انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ سوتنوں اور سوتیلے بہن بھائیوں میں اتفاق دیدنی تھا، اور اس مثالی لین دین کا سہرا حضرت موصوف کے سر تھا۔ پھر بھی عجز و نیازمندی کے پیکر بنے کہ اپنی دونوں بیویوں سے حقوق کی ادائیگی کا پوچھا، بہ تقاضہ بشریت عمر بھر کسی بھی کوتاہی پر معافی تلافی میں ذرا عارمحسوس نہ کرنا حضرت موصوف کا بہترین اخلاق اور عالم باعمل ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
پانچ دہائیوں کی مختصر زندگی حضرت موصوف نے حق کی تلاش اور اس کی معرفت میں گذاری، زمانہ طالب علمی سے استاذ الاساتذہ ، سند الفضلا، شیخ المشائخ اور مصباح العلوم کے القاب تک ہر لمحہ خوش خلقی سے مزین تھا۔
 موت العالِم ثلم فی الاسلام (عالم دین کی موت سے دین اسلام میں خلا پیدا ہو جاتا ہے)
موت العالِم مصیبة لا تبخیر (عالم دین کی موت ناقابل تلافی نقصان ہے )
موت العالِم موت العالَم(عالم دین کی موت پورے جہان کی موت ہے)
قرنہا باید کہ تا یک مرد حق پیدا شود
بایزید اندر خراساں یا اویس اندر قرن

مزید :

کالم -