تذبذب

تذبذب
تذبذب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

طاقت ہاں کہنے میں نہیں، ناں کہنے میں ہوتی ہے اور موقف کو بین بین رکھنے والے تو ہاں کہنے کی معمولی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ ہمارے سرکاری تذبذب پر دراصل قومی مفادات کا پہرہ نہیں حکمرانوں کی نفسیات اور اُن کے پھیلے ہوئے ذاتی مفادات کا گمراہ کن بسیرا ہے۔ کیا پاکستان کی عسکری سیاسی اور سرکاری اشرافیہ نے ریاستی حکمت عملی کے تعین میں قومی مفادات کا پہلے لحاظ رکھا ہے جو وہ اب ظاہر کررہے ہیں۔ یہ پُرانے طرزِ عمل پر نئی پیشکش کا اُسلوب ہے اور کچھ بھی نہیں۔ بدلے ہوئے لوگ اپنے تمام اعمال میں ہی تبدیل شدہ نظر آتے ہیں۔اُن کے لئے کسی دوسرے کو یہ باور نہیں کرانا پڑتا کہ وہ دراصل اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ مسلم لیگ(ن) اور اُس کی قیادت باسی کڑھی کا بس اُبال ہے اور کچھ بھی نہیں۔


یمن بحران پر پاکستان نے کسی بھی سطح پر کوئی سبقت نہیں لی۔ وہ باغبان اور صیاد دونوں کو خوش کرنے کے پھیرے میں دونوں کو ہی ناراض کر بیٹھا۔ حکومت اس باب میں بصیرت اور بصارت دونوں سے ہی تہی نظر آئی۔ اس مسئلے نے یہ ثابت کردیا کہ الفاظ کی گوٹا کناری سے کسی معمولی شخص کو مدبر ثابت کرنے کا فدویانہ عمل ایک بڑی شرمندگی کے ساتھ واپس پلٹ آتا ہے۔ میاں نوازشریف کی شخصیت سے تدبر و تفکر کشید کرنے کا لایعنی عمل اب اپنے قدرتی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔وہ ہر بحران میں اپنے طرزِسیاست سے خود اپنے بارے میں ایک ناکافی ذہانت اور غیرموزوں قیادت کا تاثر مستحکم کرتے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے قیادت کی نہایت مضرت رساں یہ خامیاں اب وطنِ عزیز کے لئے ایک بہت بڑے بوجھ میں بدل رہی ہے۔ یہ فیصلہ کن لمحات ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ملک کے اندر یمن بحران کو نہایت غلط طریقے سے برتا ہے۔ یہ حساس ترین مسئلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ اس ضمن میں بنیادی پالیسی کے قابلِ بیان حصوں کے خدوخال پر پارلیمانی قائدین کونہایت متانت سے اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا۔یمن بحران کثیر الجہتی مسائل سے مملو ایک ایسا مسئلہ ہے، جس نے مستقبل میں کئی نئے بحرانوں کی تخلیق کا محرک بننا ہے۔ اس لئے اس کے تمام پہلو پارلیمنٹ کی ریمپ پر جلوے بکھیرنے کے لئے نہیں تھے۔ حکومت کا اندازا شاید یہ تھا کہ اس بحران پر پارلیمانی جماعتیں اُس طرح نظر نہیں آئیں گی، جس طرح وہ عمران خان کے دھرنے میں اپنی اپنی بقا کے پیشِ نظر یک جان ہو گئی تھیں۔ یہ ایک مختلف مسئلہ تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات اور رجحانات کے پیشِ نظر پاکستان کے اندر اور باہر اپنی اپنی دنیائیں بنا رکھی ہیں۔ عسکری اشرافیہ ابھی تک ایک درست نتیجے تک نہیں پہنچ سکی کہ اُس نے طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کی جو صورت گری کی ہے ، اُس نے ہر سیاسی اور فرقہ وارانہ قوت کو ملک سے آگے دیکھنے کے لاشعوری عمل کا حصہ بنا دیا ہے۔ اِسی تناظر میں ایک جملہ معترضہ کو بھی شامل کر لیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں مشرقِ وسطیٰ کی طاقت کے دوقطبی جہاں میں پاکستان کے تاریخی دوست کو کیوں نظر انداز کیا تھا؟ کیا یہ مسئلہ صرف جناب آصف علی زرداری کے مسلکی رجحان سے ہی منسلک تھا؟ ذرا یاد کیجئے ! وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے پانچ سالہ مدت میں کتنی بار ایران کے دورے کئے تھے؟ آصف علی زرداری کی یہ فعالیت پیپلز پارٹی کے پچھلے ادوار سے قطعی مختلف تھی۔ اگرچہ محترمہ نصرت بھٹو کا خاندانی پسِ منظر ایران کا تھا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا۔ آصف علی زرداری کے دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو کچھ بھی کیا اُس کی بنیادیں اُنہیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں مہیا کر دی گئی تھیں۔


یہ پاکستان کی ایک کھلی بدقسمتی ہے کہ اِسے آزاد رو (لبرل) قیادت کے نام پر بھی جو کچھ میسر آیا وہ فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ مخصوص نوع کی اباحیت پسندی کے جہلِ مرکب کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ مشرف دور میں ’’دہشت گردی ‘‘ کے خلاف جس ’’دہشت گردانہ جنگ‘‘ کا ماحول پیدا کیا گیا اُس کے لئے بنیادی ذہن فرقہ وارانہ ہی رکھا گیا تھا۔ ایک خاص طرح کی ذہنیت کو ایک خاص طرح کے رجحانات رکھنے والوں کے خلاف ریاستی قوت فراہم کی جانے لگی، جس نے پاکستان کا پورا سماجی ، سیاسی اور سرکاری ڈھانچہ بُری طرح متاثر کر دیا۔جنات پالنے کا شوق صرف منتروں سے پورا نہیں ہوتا۔ کچھ جن ایسے بھی ہوتے ہیں جو منتروں سے حاضر تو ہو جاتے ہیں مگر وہ بوتلوں میں بند رہ کر صرف ’’حاضر جناب‘‘ کی خدمت پر مامور نہیں رہتے۔ پہلے ایک طرح کے رجحانات کی سرپرستی نے ملک کی تین دہائیاں چاٹ لیں اور اب دوسری طرح کے رجحانات نے ملک کو دودہائیوں سے جکڑرکھا ہے۔ یہاں ہمیں مملکت کے بے مثال حکمت کاروں کو رُک کر داد ضرور دے دینی چاہئے۔ مشرف حکومت آئین کی پامالی سے کہیں زیادہ اس بات کی مستحق ہے کہ اُسے مملکت کے اندر اس ’’ذہنیت‘‘ کے دانستہ پروان چڑھائے جانے پر احتساب کا مزاہ چکھایا جائے، جس نے ریاست کی پوری بُنت کو متاثر کیا اور خطے میں فرقہ وارانہ اُفق کو وسیع کرنے کے لئے سرکاری نظام کو آسان کر دیا۔


آصف علی زرداری کی حکومت اِسی راستے پر چل کر مشرقِ وسطیٰ کی دوقطبی دُنیا میں پاکستان کو مختلف کردار کی ریاست بنانے میں جُتی رہی۔ میاں نواز شریف کی حکومت نئے پاکستان کے اس نئے ماحول میں پیدا کئے گئے نئے فشاری گروہوں کی طاقت کا درست اندازا نہیں لگا سکی۔ نئے پاکستان کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت تک ایک ایسی ریاست بن چکی ہے، جو ملک کے اندر موجود طاقت کے مراکز کو اپنی سرکاری مرضی سے چلانے کی قوت نہیں رکھتی، بلکہ اُن قوتوں کی مرضی سے ’’چلنے‘‘ کی لاچاری میں مبتلا ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ کا ماحول اُن ہی قوتوں نے بنایا تھا۔ ایک غلط فہمی دور کر لیجئے۔ آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی یہی رہے گی کہ وہ ملک کے اندرونی ماحول کو سعودی عرب دوست نہ رہنے دے اور یمن کے حوالے سے پاکستان کے فیصلے کو مشکل سے مشکل بنائے رکھے، مگر وہ اس کا اظہار کبھی نہیں کریں گے اور بظاہر حکومت کی حکمت عملی پوچھتے ہوئے یہی تاثر اپنے بارے میں برقرار رکھنا چاہیں گے کہ وہ حکومت کو ضروری تعاون دینے کے لئے تیار ہیں۔ وہ پاکستانی حکومت سے اعتماد حاصل کرکے اعتماد دینے کا راگ الاپتے رہیں گے، مگر اس کے برعکس سعودی مخالف ماحول کو اصل طاقت اُن کے ہی ذریعے مہیا کی جاتی رہے گی۔میاں نوازشریف کی حکومت مملکت کے اس نئے ماحول میں اپنی حکمتِ عملی کے خطوط سنوارنے میں ناکام رہی اور مخالف فضا کومستحکم کرنے کے لئے خود پارلیمنٹ کو ذریعہ بنانے کا محرک بن گئی ۔ اب یہ غلطی اپنی قیمت وصول کرے گی۔ اب وہ ’’ہاں‘‘ اور ’’ناں‘‘ کے بیچ ایسے فیصلے کرے گی، جو مشرقِ وسطیٰ کی دوقطبی دنیا میں کسی ایک کے لئے بھی پوری طرح راحت افزا ثابت نہ ہو سکیں گے۔میاں نواز شریف سے اس باب میں غلطیاں اور بھی بہت ہوئی ہیں مگر اس کا تذکرہ آئندہ پر اُٹھا رکھتے ہیں۔

مزید :

کالم -