سعودی یمن تنازعے میں پاکستان کا کردار
پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے،جس کے باسی ملکی خارجہ پالیسی کو اپنے اپنے مسلک کی روشنی میں طے کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ یہ رویہ ایک المیہ سے کم نہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ قوموں کے درمیان تعلقات میں کوئی چیز بھی دائمی نہیں ہوتی، سوائے باہمی ریاستی مفادات کے، لیکن گزشتہ کئی عشروں پر پھیلی مذہبی، بلکہ فرقہ ورانہ عصبیت کی وجہ سے ہر فرقہ و مسلک وطنِ عزیز کی خارجہ پالیسی کو اپنے مسلکی مفادات کے تابع دیکھنا چاہتا ہے۔ اس رویے کا ’’شاندار‘‘ مظاہرہ حالیہ سعودی یمن تنازعے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس خالص سیاسی تزویراتی نوعیت کے تنازعے کو ہمارے سقراط و بقراط جس شدو مد سے پاکستان کی فرقہ ورانہ جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اس پر ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ یمن تنازعے کو شیعہ، سُنی جنگ قرار دینے والے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہی سُنی سعودی حکومت تھی، جس نے انہی ’’شیعہ‘‘ حوثی باغیوں کی 1962ء میں مصری جارحیت کے خلاف بھرپور مدد کی تھی۔ یہی سُنی سعودی حکومت اور شیعہ ایرانی حکومت داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا سرگرم حصہ ہیں اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ سعودی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں شیعیت کے خلاف سرگرم ہے اور اِسی وجہ سے وہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرسی کی حکومت تو شیعہ حکومت نہیں تھی، لیکن پھر بھی مرسی حکومت کے خاتمے کے لئے سعودی حکومت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مزید برآں حوثی قبائل اثنا عشری شیعہ نہیں ہیں، بلکہ وہ امام ابو حنیفہ کے پیروکار ہیں۔
متذکرہ بالا حقائق سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازعات کی نوعیت جوہری طور پر سیاسی و تزویراتی ہے نہ کہ مسلکی۔ دراصل سعودی حکومت کو خدشہ ہے کہ ایران اس کے اردگرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے اپنی پراکسی کو استعمال کر رہا ہے کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ایران القدس فورس کے ذریعے عراق میں موجود ہے کیا اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن ہے کہ ایرانی مدد کے بغیر شام کی اقلیتی اسد حکومت ایک دن بھی اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتی اور کیا یمن میں ایک عشرہ قبل قائم شباب المومنین کو ایران کی بھرپور مدد حاصل نہیں؟ایران سے یمن کو اسلحہ و دیگر سازو سامان کی ترسیل تواتر سے ساتھ جاری ہے۔ یمن کی اہمیت سعودیہ کے لئے اس کے باقی ہمسایہ ممالک کی نسبت اس لئے زیادہ ہے کہ یمن سے ملحقہ سعودی ریاست کے قریبی علاقوں میں شیعہ حضرات بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ ایرانی حکومت اپنی پراکسیز کے ذریعے سعودی حکومت کے تزویراتی مفادات پر کڑی ضرب لگانے کے لئے سعودی عرب کے قرب و جوار میں مخالف تحریکیں چلانے کے لئے سرگرم ہے۔دراصل ایران اور سعودی عرب دونوں ہی علاقے میں Oil Economy پر کنٹرول کے ذریعے پورے خطے میں بالادستی کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یمن میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و نفوذ کو دیکھتے ہوئے سعودی حکومت نے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اگر اس سعودی پیش قدمی کو شیعوں کے خلاف جنگ تصور کیا جائے تو مصر کی اسلامی عقائد رکھنے والی مذہبی حکومت کے خلاف سعودی عرب کی جانب سے فوجی انقلاب کی حمایت کو کیا نام دیں گے۔
لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ہم پاکستانی مشرقِ وسطیٰ کے جاری تنازعے کو مسلکی عینک سے دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ ایک طبقے کی خواہش ہے کہ ہمیں فی الفور سعودی عرب کی حمایت کے لئے اپنا تن من دھن پیش کر دینا چاہئے کہ قوموں کی تقدیروں کے فیصلے خصوصاً خارجہ امور گلی محلوں اور چائے کے کھوکھوں پر بیٹھ کر طے نہیں کئے جاتے، خصوصاً جن معاشروں میں خواندگی کا تناسب شرمناک حد تک کم ہوا اور جہاں پڑھے لکھے افراد بھی ہر وقت مسلک کی عینک آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہوں وہاں ایسے حساس معاملات کو حکومتی اداروں اور پالیسی سازوں پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اگرچہ عوام کو کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے دینے کا اختیار تو حاصل ہے، لیکن اس جمہوری اختیار کے پردے میں انتشار پھیلانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ گزشتہ دِنوں ایک مقامی ٹی وی چینل پر ایک اینکر صاحب فرما رہے تھے کہ 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں سعودی عرب نے ہماری قطعاً کوئی مدد نہیں کی تو پھر ہم آج اس کی مدد کیوں کریں۔ آنجناب کو جب ان کے دونوں مہمان تجزیہ نگاروں نے بتایا کہ آپ کی معلومات غلط ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاک بھارت دونوں جنگوں کے دوران پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی تو اینکر صاحب نے فوراً وقفہ لینے میں ہی عافیت جانی۔
ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو حکومت کو سعودی عرب کی مدد کرنے سے روک رہے ہیں وہ کیونکر اس حقیقت کو فراموش کئے بیٹھے ہیں کہ2003ء میں ایران نے بھارت کے ساتھ جو دفاعی معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے اگر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی تو ایران پوری طرح سے بھارت کی مدد کرے گا ، کیا بھارت ایران معاہدے پر ہمارے نام نہاد دانشوروں نے اس وقت حکومت ایران کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی تھی؟ یا انہوں نے ایرانی قیادت سے یہ سوال کرنے کی جرأت کی تھی کہ جناب آپ ہمارے وطن کے اذلی دشمن مُلک سے یہ معاہدہ کیوں کر بیٹھے جو ہمیشہ ہماری سلامتی کے در پے رہتا ہے اور کیا ایران نے بھارت سے یہ معاہدہ کرنے سے پہلے اپنے ہاں کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی، جس میں اس معاہدے کی تمام پارٹیوں سے اجازت لی گئی ہو۔ قومی سلامتی جیسے حساس معاملات کوتاہ نظر سیاسی رہنماؤں کے سامنے نہیں رکھے جا سکتے، جو اپنے اپنے فرقوں اور مسالک کو ملکی سلامتی پر ترجیح دیتے ہوں۔
اس تاریخی حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ1971ء کی جنگ میں بھارت کی شہہ پر ایران پاکستانی بلوچستان کو ہڑپ کرنے کے لئے تیار بیٹھا تھا، لیکن امریکہ کی طرف سے آنکھیں دکھانے پر وہ ایسا نہ کر سکا۔ افغانستان کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے، تو ایران بھارت گٹھ جوڑ بخوبی عیاں ہے، جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کرنے کے لئے ایران جس تندھی سے بھارت کے تعاون سے کام کر رہا ہے وہ بھی سب پر عیاں ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کا چارٹر بھی رکن ممالک کے ذریعے کسی مُلک کی قانونی حکومت کی بحالی پر معاونت پر زور دیتا ہے اور منصور ہادی کی حکومت ایک قانونی حکومت ہے، جس کو ایک بغاوت کا سامنا ہے اور حوثی قبائل کو ایرانی اسلحہ کی فراہمی زور و شور سے جاری ہے۔ اگر ایران حوثی باغیوں کی حمایت پر حق بجانب ہے تو ہم منصور ہادی کی قانونی حکومت کی بحالی کے لئے اپنے دوست سعودی عرب کی حمایت کیوں نہیں کر سکتے، لہٰذا ان تمام حقائق کی روشنی میں حکومتِ پاکستان پر لازم ہے کہ کسی جارحیت کا حصہ بنے بغیر ہم اپنے سعودی بھائیوں کی بھرپور مدد کریں، جنہوں نے1971ء اور 1965ء کی جنگوں کے دوران اپنی بساط سے بڑھ کر ہماری مدد کی تھی کہ یہی پالیسی ہمارے بہترین مفاد میں ہے۔