اسٹیبلشمنٹ کا نیا ہتھیار
پاکستان میں سول سوسائٹی اسٹیبلشمنٹ کا نیا ہتھیا ر ہے جس نے اس وقت ملک میں اودھم مچایا ہوا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ سول سوسائٹی ،الیکٹرانک میڈیااور عدلیہ پاکستان میں جنم لینے والے رائے عامہ کے نئے گھر ہیں جنھوں نے گزشتہ بیس برسوں میں تیزی کے ساتھ سیاست دانوں،چائے خانوں اور افواہ سازحلقوں کی جگہ لی ہے۔۔۔اس کا سبب گزشتہ بیس برسوں کے دوران پاکستان میں مغربی کلچر کا فروغ ہے جس کا آغاز نوے کی دہائی کے اوائل میں ہوا تھا جب پاکستان نے اپنی معیشت کو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لئے کھولا تو دیکھتے ہی دیکھتے یہاں پیپسی کولا، میکڈونلڈ اور موبائل فونوں کاراج ہوگیااورپاکستانی کلچر کا ایک بڑا حصہ بے ننگ و نام ہوگیا !
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست بھی گزشتہ بیس برسوں میں ہی پنپی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ آج سول سوسائٹی اور الیکٹرانک میڈیا اور عدلیہ ،کے بل بوتے پر عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک ٹھوس حقیقت بن چکے ہیں، خاص طور پر 2013کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف عمران خان کے چار ماہ کے دھرنوں میں ان تین قوتوں کا کردار زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے ۔اگر جاوید ہاشمی بروقت بغاوت نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ مکار اسٹیبلشمنٹ سول سوسائٹی ،الیکٹرانک میڈیا اور عدلیہ کے کندھے پر بنگلہ دیش ماڈل کی بندوق رکھ کر پاکستان کے دل میں گولی داغتی اور حکومت کو گھر چلتا کرکے پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے کو ایک مرتبہ پھر بہت بڑی مایوسی کا شکار کردیتی !
سول سوسائٹی کے نام پر پاکستان کے مغرب نواز حلقے یہاں اپنی مرضی کی رائے عامہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا اورعدلیہ کا ایک حصہ ان کی کمک کے لئے ہر وقت تیارہے۔ یہ سول سوسائٹی انگریزی بول رہی ہے ، انگریزی لکھ رہی ہے اور انگریزی پڑھ رہی ہے اور اس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی ایک سچوایشن کو ایشو بنانے کے لئے سول سوسائٹی پہلے سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوتی ہے جس پر الیکٹرانک میڈیا حرکت میں آتا ہے اور پھر اعلیٰ عدلیہ اس پر حکم ناموں کے انبار لگاکر اسٹیبلشمنٹ کے ٹارگٹ کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کردیتی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی بطور وزیراعظم نواز شریف یوتھ لون سکیم کے چیئرمین تعیناتی اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ جونہی مریم صاحبہ چیئرمین منتخب ہوئیں، سول سوسائٹی نے سوشل میڈیا پر کائیں کائیں شروع کردی کہ ملک میں ایک خاندان کی حکومت قائم کردی گئی ہے ، انگریزی اخبارات کے ادارتی صفحات ایسے مضامین سے تر ہوگئے ۔ عمران خان نے بھی اس کو ایک مہم کے طور پر اپنی تقریروں اور ٹی وی بیانات کا حصہ بنانا شروع کردیا اور پھر عدلیہ میں ایک رٹ دائر کی گئی جہاں پر مریم نواز شریف کو طلب کرلیا گیا جس اور حکومت نے فوری طور پر ان کی چیئرمینی کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا، اللہ اللہ خیر سلہ!۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ جونہی مریم نواز شریف اس عہدے سے فارغ ہوئیں، ملک میں ایک ہی خاندان کی حکومت کا پراپیگنڈہ ٹھنڈا پڑ گیا اور وزیراعظم کے سمدھی جی کے خلاف جاری مہم بھی دم توڑگئی۔
مریم نواز شریف کے خلاف سول سوسائٹی کا بنیادی موقف یہ تھا کہ سیاست میں موروثیت کو ختم ہونا چاہئے۔ ان کے اس موقف پر اگر کوئی سیاست دان پورا اترتا تھا تو وہ عمران خان تھے ۔ لہٰذا سول سوسائٹی نے جہاں مریم نواز شریف کی سیاست میں انٹری کو مسدود کیا وہیں عمران خان کی سیاست کو چار چاند لگائے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اب جب ریحام خان عمران خان کی ہمرکابی کرتے ہوئے کراچی میں جلوہ افروز ہوئیں تو سول سوسائٹی نے بھولے سے بھی نہیں کہا کہ عمران خان ریحام خان کو اپنے جانشین کے طور پر پروموٹ کرکے ملک میں موروثی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں ۔اس کے برعکس ریحام خان کو عمران خان کی طرح ایک اچھی crowd puller کہا گیا۔ لہٰذا اس بات کا سنجیدگی سے تجزیہ ہونا چاہئے کہ کہیں اسٹیبلشمنٹ سول سوسائٹی کو Agent of change کے طور پر استعمال کرکے یہاں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی تگ و دو تو نہیں کر رہی کیونکہ سول سوسائٹی اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کی سیاست میں انٹری کے موقع پربھی ایسا ہی پراپیگنڈہ کر کے اسٹیبلشمنٹ کے لئے خاطر خواہ نتائج حاصل کرچکی ہے۔