وکلاء کی ہڑتالوں سے عام آدمی کی مایوسی
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے کہا ہے کہ جج آئین و قانون کے مطابق عوام کو انصاف دیں، ہڑتالیں مسائل کا حل نہیں، وکلاء کی ہڑتالوں سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے، مظلوم کو سستا اور فوری انصاف دیئے بغیرکوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔ بنچ اور بار موجودہ نظام انصاف کے دو پہیے ہیں، وکلاء اور ججوں کی بنیادی ذمہ داری کسی بھی مقدمے کی تہہ تک پہنچنے اور فریقین مقدمہ میں سے درست موقف کے حامل فریق کو انصاف کی فراہمی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے،جس کی ایک وجہ تو آبادی میں اضافہ اور ججوں کی تعداد میں کمی ہے، پھر عدالتوں کی تعداد بھی کم ہے، لیکن مقدمات میں تاخیر اور ان کے لمبے عرصے تک لٹکے رہنے کی ایک وجہ وکلاء کی ہڑتالیں بھی ہیں، جو وقتاً فوقتاً بات بے بات ہوتی رہتی ہیں۔ وکلاء بعض اوقات ایسے معاملات پر بھی ہڑتالیں کر دیتے ہیں، جن سے اُن کا یا اُن کے پیشے کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا، پھر ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی وکیل کی جج سے تلخی ہو گئی،جس کا باعث بھی عموماً وکیل کا اپنا رویہ ہی ہوتا ہے تو دوسرے وکلاء اپنے ہم پیشہ بھائی کی حمایت میں کام چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہڑتالیں بڑے چھوٹے شہروں میں ہر جگہ ہوتی رہتی ہیں، جن کی وجہ سے وکلاء کے موکلوں کو غیر معمول پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ معمولی معمولی مقدمات وکلاء کی عدم دستیابی یا اُن کی ہڑتالوں کی وجہ سے غیر معمولی عرصے کے لئے لٹک جاتے ہیں، جس کی سزا موکل کو ملتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جیلوں میں بند چھوٹے چھوٹے مقدمات میں ماخود ملزموں کو جب دور دراز سے کچہریوں میں لایا جاتا ہے تو وہاں آ کر پتہ چلتا ہے کہ آج تو وکلاء کی ہڑتال ہے، مقدمات کی لمبی لمبی تاریخ پیشی دی جاتی ہے، ہڑتالوں کا معاملہ وکلاء کی توجہ چاہتا ہے۔ یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ ہائی کورٹ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس خواجہ امتیاز احمد نے بھی اپنے الوداعی خطابات میں وکلاء کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور اب چیف جسٹس منظور احمد ملک کو بھی اس جانب توجہ دِلانا پڑی ہے۔ وکلاء حضرات کو فاضل چیف جسٹس کی اس نصیحت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔