یمن جھڑپوں میں50افراد ہلاک ،بمباری روکنے کا ایرانی مطالبہ مسترد
ریاض/اسلام آباد/ قاہرہ(مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن،اے این این)یمن میں سعودی اتحادیوں کی فضائی کارروائی اور تازہ جھڑپوں میں مزید 50 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جبکہ یمن سرحد پر تازہ جھڑپ میں 3سعودی فوجی ہلاک اور 2زخمی ہوگئے ہیں۔ ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران اتحادی فوج کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل احمد عسیری نے بتایا کہ یمن میں اتحادی طیاروں نے 26 مارچ سے اب تک 12سو فضائی حملے کیے۔ جس کے نتیجے میں حوثی باغیوں کی فضائی اور بیلسٹک صلاحیتیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں زمینی کاروائی مناسب وقت پر شروع کردی جائے گی۔ سعودی وزارت دفاع کے مطابق آپریشن میں یمن کی سرحد پر جھڑپوں کے دوران اب تک 500باغی مارے جاچکے ہیں، جبکہ جمعہ کو جھڑپ کے دوران مارٹر حملے میں 3سعودی فوجی ہلاک اور 2 زخمی ہوئے ہیں۔ جس کے بعد سرحد پر جھڑپوں میں مرنے والے سعودی فوجیوں کی تعداد 6ہوگئی ہے۔ ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق تازہ حملوں میں صنعا کے شمال میں سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس میں8 باغی مارے گئے، جبکہ عدن میں سرکار کے حامی جنگوؤں اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپوں میں مزید 42افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ عالمی ادارے ریڈ کراس کے ترجمان کے مطابق حملوں کے باوجود اقوام متحدہ اور عالمی ریڈ کراس نے عدن اور صنعا میں 46ٹن سے زیادہ طبی اور دیگر امدادی سامان پہنچایا۔دوسری جانب سعودی عرب کے خصوصی مشیر برائے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ العمار نے کہاہے کہ یمن کے مسئلے پر ثالثی کی بات مذاق کے مترادف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان یمن جنگ میں شامل ہوکرباغیوں کاکنٹرول ختم کرانے میں مدددے جبکہ پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ سعودی عرب کا ساتھ دیا جائے، سعودی عرب اور پاکستان آپس میں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی مشورہ کرتے ہیں یہ تو بڑی بات ہے یقیناً مشورہ ہوا ہوگا،نجی ٹی وی کودیئے گئے انٹرویومیں سعودی عرب کے مشیر اعلیٰ نے کہاکہ ہماری جنگ یمن سے نہیں باغیوں سے ہے اس جنگ کا تعلق دین اور مذہب سے نہیں بلکہ یہ خالصاً ایک سیاسی مسئلہ ہے ، جس دن سے یمن بغاوت شروع ہوئی ہے ایران سے روزانہ کی بنیاد پر اسلحے سے بھرے ہوئے تین بحری جہاز یمن پہنچ رہے ہیں، حزب اللہ نے حوثیوں کو عسکری تربیت دی ،ایرانی فورسز اورحزب اللہ کے باغیوں کی موجودہ کارروائیوں میں شریک ہونے کے شواہدموجود ہیں، متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کابیان ایک بھائی کادوسرے بھائی سے محض شکوہ ہے، غصہ اسی پرکرتے ہیں جس سے محبت ہو ،ادھر عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین احمد بن محمد الجروان نے بھی پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔نجی ٹی وی کودیئے گئے انٹرویومیں سعودی عرب کے مشیر اعلیٰ نے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق نہایت ہی مضبوط ہے ۔ ہماری مثال حقیقت میں ایک جان اوردو قالب کی ہے، میں اس وقت بھی اپنے آپ کو سعودی عرب سے باہر محسوس نہیں کررہا ۔ پاکستان بھی میرا ویسے ہی وطن ہے جیسے سعودی عرب ہے، یمن میں کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کی تاسیس اور پہلے فرمانروا عبدالعزیز السعود کے زمانے سے لیکر آج تک سعودی عرب ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کی داعی رہی ہے۔ عبدالعزیز السعود نے80 سال قبل ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس بات کا اعلان کیا کہ مملکت اتحاد امت اسلامیہ کیلئے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائے گی۔ عبدالعزیز آلسعود کے بعد آنے والے تمام فرمانروا ملک سعود، ملک خالد، ملک فہد اور ملک عبداللہ تمام اپنے پیشراؤں کی روایات پر گامزن رہے اور ہمیشہ امت کو متحد اور یکجان رکھنے کیلئے ہر ممکن کاوشیں کرتے رہے اور موجودہ حکمران بھی اسی پالیسی پر چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ شریعت کا بھی یہی حکم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور موجودہ امت امت واحد ہے اور ہم شرعاً اور عقلاً اس ذمہ داری کو بھی سمجھتے ہیں اور نبھاتے بھی ہیں۔ ہم امت مسلمہ میں موجود فرقوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ہمارے دروازے پوری دنیا کیلئے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یمن کی صورتحال ہرگز فرقوں کی جنگ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو یہ جنگ آج سے ایک ہزار سال پہلے چھڑ چکی ہوتی کیونکہ یمن میں زیدی اور شافعی ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور محبت کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ زیدی سنیوں کی مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں ، باہم شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اس جنگ کا تعلق دین اور مذہب سے نہیں ہے۔ یہ خالصاً ایک سیاسی مسئلہ ہے ، یمن میں باغیوں نے قانونی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کررکھی ہے اور قتل غارت گری کا بازار گرم ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ پانچ سال سے جاری تھا اورسعودی عرب نے ہمیشہ اسے گفتگو اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہاکہ یمن میں حوثی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں۔ ایک فیصد آبادی کو99 فیصد پر بازور طاقت مسلط ہونے کی کوئی اجازت نہیں دے سکتا۔ حل یہ ہے کہ باغی ہتھیار پھینک دیں ، قانونی حکومت دوبارہ بحا ل ہو اور پھر حوثی انتخابات میں حصہ لیں۔ اگر اس طریقے سے قانونی حکومت حاصل کرلیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ سعودی مشیر اعلی ٰ نے کہاکہ ذیدی سنیوں کی دینی کتب سے استفادہ کرتے ہیں اور ہم بھی ان کی بات کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ جیسے کہ تفسیر فتح القدیر میں نے خود بھی پڑھی ہے۔ ہم ان کے اور اپنے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے اس بغاوت اور پریشانی کا سبب ایک بیرونی ملک کی بے جا مداخلت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ نے کہاکہ سعودی حکومت نے سالوں مذاکرات کا اہتمام کیا اور حوثی قبائل بھی مذاکرات میں شریک ہوتے رہے مگر اب اچانک حوثیوں نے بغاوت کردی۔ قانونی حکومت کو ختم کیا، طلباء کا قتل عام کیا اور سکولوں اور یونیورسٹیوں کو تباہ کیا۔ یمن کی قانونی حکومت کے صدر عبدالرب حادی نے خلیجی ممالک سے اس صورتحال میں مدد کی درخواست کی اور اتحادی افواج کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوا کرتے ، مذاکرات تو تب ہونگے جب باغی ہتھیار پھینک دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یمن کے معاملے ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ حوثی باغی گزشتہ تین سال سے سعودی سرحدی علاقوں پر حملے کرتے آرہے ہیں جس دن سے بغاوت شروع ہوئی ہے ایران سے روزانہ کی بنیاد پر اسلحے سے بھرے ہوئے تین بحری جہاز یمن پہنچ رہے ہیں۔ حزب اللہ نے حوثیوں کو عسکری تربیت دی اور اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ ایرانی فورسز اورحزب اللہ موجودہ کارروائیوں میں شریک ہیں۔ خلیجی ممالک نے یہ تجویز دی ہے کہ بیرونی مداخلت ختم کی جائے۔حوثی ہتھیار پھینک کر واپس اپنی پوزیشن پرجائیں، قانونی حکومت بحال ہو۔ ایک فیصد آبادی کو 99 فیصد پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مظلوم کا ساتھ دینگے اورظالم کا ہاتھ روکیں گے۔ یمن میں ہرقسم کی بیرونی مداخلت کو ختم کرینگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم شیعہ سے نہیں لڑ رہے ، شیعہ تو سعودی عرب میں بھی موجود ہیں اور ہمارے ہم وطن ہیں، یمن شیعہ ملک نہیں ہے، ہم حزب اللہ کا نام اس وجہ سے نہیں لے رہے کہ وہ شیعہ ہے بلکہ اگر حزب اللہ اور حزب الرحمن کے نام سے بھی مداخلت کرتا ہے تو ہم اس کی بھی مداخلت ختم کرتے ۔ پاکستان کے حوالے سے سعودی مشیر اعلیٰ نے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب کا گہرا تعلق ہے، سعودی عرب امن اور جنگ ، خوشی اور غم ہر قسم کے حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم یکجان اور دو قالب ہیں۔ ہم ایک پرندے کے دو پر ہیں۔ اگر عالم اسلام کا کوئی تالا ہے تو اس کی دو چابیاں ہیں ایک سعودی عرب اور دوسری پاکستان۔ پاکستانی عوام مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کا موقف سعودی عرب کے بارے میں بہت مضبوط ہے۔ جو کچھ بھی ہوجائے یہ بات بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ممالک کبھی ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اثر پڑا ہے نہ پڑے گا ۔ اتحادی فوجیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور بڑا کام مکمل ہوچکا ہے۔ اتحادی فوجیں خاص پلان کے تحت کام کررہی ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ حوثیوں کی عسکری کارروائیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ یمن کی جنگ نامی کسی چیز کا وجود نہیں ہے ہماری یمن کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔ یمن ہمارا جزو ہے، ہمارا سگا بھائی ہے۔ اس وقت اتحادی افواج باغیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ یمن کے عوام کیلئے ہماری خدمات بہت پرانی ہیں اور یمن ہمیں بہت عزیز ہے۔ یمن کارروائی کا پورا پلان اتحادی افواج کے پاس ہے کہ کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوگی۔ یہ سب طے ہے،حوثیوں کیلئے یہ بات ضرور حیران کن ہے کہ کس قدر جلدی اتحادی فوج نے ان کی قوت توڑ دی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب اور پاکستان آپس میں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی مشورہ کرتے ہیں تو یہ تو بڑی بات ہے یقیناً مشورہ ہوا ہوگا۔ ہم پاکستان حکومت کے ساتھ مشورہ کرنے کے عادی ہیں، مجھے ابھی تفصیل کا علم نہیں لیکن یقین ہے کہ پاکستان ہر حال میں سعودیہ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اس سوال پر کہ سعودی عرب کو پاکستان سے کس طرح کاتعاون چاہیے ۔ سعودی مشیراعلیٰ نے کہاکہ یہ معلومات تو عسکری ذرائع سے متعلق ہیں وہی اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں۔ سعودی وزیرنے کہاکہ متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کابیان ایک بھائی کادوسرے بھائی سے محض شکوہ ہے کیونکہ آپ غصہ اسی پرکرتے ہیں جس آپ کومحبت ہوتی ہے۔پاکستان اورترکی کے مصالحتی کردارسے متعلق انہوں نے کہا کہ یمن میں ایک طرف باغی اور دوسری طرف قانونی حکومت ہے،ایسی صورتحال میں ثالثی کی بات مذاق کے مترادف ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کے بعد عرب پارلیمنٹ کے چیرمین احمد بن محمد الجروان نے بھی پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ میڈیارپورٹ کے مطابق عرب پارلیمنٹ کے چیرمین احمد بن محمد الجروان نے پاکستان کی جانب سے یمن جنگ میں فریق نہ بننے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا فیصلہ عرب اور اسلامی ممالک کے موقف سے متصادم ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش نے بھی پاکستانی پارلیمنٹ کے فیصلے پر سخت تنقید کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کو اپنے فیصلے کی سخت قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یمن کے بحران پرپاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری کی گئی قراردا میں حکومت پر زوردیا گیا ہے کہ وہ یمن میں جاری جنگ میں غیرجانبدار رہے تاکہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے فعال سفارتی کوششیں کرسکے۔،مزید برآں سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح عبداللہ بن عبدالعزیز پاکستان پہنچ گئے ۔ ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستانی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے ۔ ہم پاکستانی حکومت سے بہتری کی امید رکھتے ہیں۔ پاکستان سے مضبوط مذہبی ، معاشی اور عسکری تعلقات ہیں۔ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا،سعودی وزیر پاکستانی مذہبی امور کے وزیر سردار یوسف سے ملاقات کرینگے۔
ریاض(مانیٹرنگ ڈیسک)سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ،یمن میں حوثی باغیوں پر بمباری روکنے کا ایرانی مطالبہ قابل قبول نہیں لہٰذا ہمیں امید ہے کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائے گا۔وہ دارالحکومت الریاض میں اتوار کو فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیئس کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے 26 مارچ کو یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی دعوت پر حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف حملے شروع کیے تھے۔انھوں نے کہا کہ یمن میں ایران کے کردار نے مسئلے کو بگاڑ دیا ہے اوراس کی وجہ سے ملک میں تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔شہزادہ سعود الفیصل نے کہا کہ ''ایران ہمیں یمن میں لڑائی ختم کرنے کے لیے کیسے کہہ سکتا ہے۔ہم یمن میں ایک مجاز اتھارٹی کے دفاع کے لیے گئے تھے اور ایران یمن کا داروغہ (انچارج) نہیں ہے''۔سعودی وزیر خارجہ نے چھے بڑی طاقتوں کے اسی ماہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر طے پائے فریم ورک سمجھوتے کے حوالے سے بھی اظہار خیال کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ خطے کی سکیورٹی میں اضافے کی جانب اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔اس موقع پر فرانسیسی وزیرخارجہ نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی مہم کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے تنازعے پر حالیہ فریم ورک سمجھوتے کے حوالے سے کہا کہ حتمی معاہدہ طے پانے سے قبل ابھی دو اہم نکات پر بات چیت ہونا ہے۔انھوں نے شام میں جاری بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور کہا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندہ حکومت کے قیام کی صورت ہی میں اس بحران کو طے کیا جاسکتا ہے۔لوراں فابیئس ہفتے کی رات دارالحکومت الریاض پہنچے تھے اور انھوں نے اتوار کو سعودی قیادت سے ملاقات میں یمن کی صورت حال اور دوسرے علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ''یمن کے حوالے سے ہم یہاں سعودی حکام کی خاص طور پر سیاسی حمایت کے لیے آئے ہیں''۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل کے لیے بات چیت کی جانی چاہیے۔قبل ازیں ان کے ہم سفر وفد کے ایک رکن نے کہا کہ ''فابیئس سعودی میزبانوں کے ساتھ ملاقات میں یہ واضح کریں گے کہ فرانس فطری طور پر یمن میں حالات معمول پر لانے کے لیے اپنے علاقائی شراکت دار کے ساتھ ہے''۔واضح رہے کہ فرانس سعودی عرب اور امریکا کی طرح صدر عبد ربہ منصور ہادی ہی کو یمن کا حقیقی اور جائز حکمران تسلیم کرتا ہے اور اس نے یمن میں ماضی میں القاعدہ کے خلاف امریکا کے ڈرون حملوں کی بھی حمایت کی تھی۔امریکا یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ''آپریشن فیصلہ کن طوفان'' کے لیے انٹیلی جنس معلومات فراہم کررہا ہے اور اس نے دوران پرواز سعودی طیاروں میں ایندھن بھرنے کا کام بھی شروع کردیا ہے جبکہ فرانس نے ابھی تک سیاسی حمایت کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے
اسلام آباد(آئی این پی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے متحدہ عرب امارت کے ایک وزیر کے دھمکی آمیز بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان ناقابل قبول اور پاکستان اور پاکستانی عوام کی توہین کے مترداف ہے ،پاکستانی عوام سعودی عرب کے ساتھ ساتھ یو اے ای کے عوام کیلئے برادرانہ جذبات رکھتے ہیں ۔اتوار کو یو اے ای کے ایک وزیر کے بیان پراپنے شد ید ردعمل میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ یہ ایک بڑی ستم ظریفی ہی نہیں بلکہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ یو اے ای کے ایک وزیر پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں ،مروجہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یو اے ای کے ایک وزیر کا یہ بیان تمام سفارتی آداب کے منافی ہے،وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مذید کہا ہے کہ پاکستانی قوم ایک غیرت مند قوم ہے اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارت کے عوام کے لیے بھی بردارنہ جذبات رکھتے ہیں مگر ایک امارتی وزیر کا یہ بیان پاکستان اور پاکستانی عوام کی عزت نفس کی ہتک کے مترداف ہے اور ناقابل قبول ہے ۔علاوہ ازیں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کی پھانسی پر اپنے ردعمل میں وزیر داخلہ نے کہاکہ حکومت اور وزارت خارجہ کا موقف اپنی جگہ لیکن بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پاکستانی اور پاکستانیت خون کے آنسو روتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اور کونسا داخلی معاملہ ہے کہ 1970ء میں اس وقت کے آئینی اور قانونی مملکت سے وفاداری نبھانے والوں کو 45 سال بعد پھانسی پر لٹکایا جائے۔ جمہوریت اور انسانیت کے عالمی علمبرداروں کو بنگلہ دیش کی صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔