لگتا ہے تمام ترقیاتی منصوبے لاہور کے لئے ہیں ،ہائی کورٹ نے ایل ڈی اے کے بجٹ کی تفصیلات طلب کرلیں

لگتا ہے تمام ترقیاتی منصوبے لاہور کے لئے ہیں ،ہائی کورٹ نے ایل ڈی اے کے بجٹ کی ...
لگتا ہے تمام ترقیاتی منصوبے لاہور کے لئے ہیں ،ہائی کورٹ نے ایل ڈی اے کے بجٹ کی تفصیلات طلب کرلیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (نامہ نگار خصوصی ) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سگنل فری کوریڈور منصوبے اور ایل ڈی اے کی قانونی حیثیت کے خلاف درخواستوں پر قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں تمام ترقیاتی کام صرف لاہور میں کئے جا رہے ہیں، صوبائی دارلحکومت سے باہر نکلیں تو سڑکیں اور گلیاں ٹوٹی پھوٹی ملتی ہیں، پنجاب نے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے لوکل گورنمنٹ اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے ذریعے کام کر کے دوہرا قانون اپنا رکھا ہے ۔مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ ، مسٹر جسٹس یاور علی اور مسز جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل فل بنچ نے یہ ریمارکس ایل ڈی اے کی قانونی حیثیت اور سگنل فری کوریڈور منصوبے کے خلاف دائردرخواستوں پرایل ڈی اے کے بجٹ اور اکاﺅنٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے دیئے ۔کیس کی سماعت کے آغاز پر ایل ڈی اے کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سگنل فری کوریڈور منصوبہ مفادعامہ کے لئے شروع کیا گیا جس سے قرطبہ چوک سے لبرٹی چوک تک ٹریفک کے مسائل حل ہوں گے اورجیل روڈ پر واقع ہسپتالوں ، یونیورسٹی اور کالجز کی وجہ سے ٹریفک کے دباﺅ میں کمی واقع ہو گی، سگنل فری کوریڈور منصوبے کو محکمہ ماحولیات کی منظوری کے بعد شروع کیا گیا ہے ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نوید رسول مرزا نے منصوبے کے خلاف دائر درخواستوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ تمام درخواستوں میں دو شہری چکوال اور کراچی کے رہائشی ہیں، اس پراجیکٹ کا مقصد روڈ کو سیدھا کرنا ہے اور ٹریفک کو آسان اور مسافروں کو پر سکون سفر مہیا کرنا ہے، سروسز ہسپتال اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آنے والے مریضوں کی مشکلات سے متعلق پرنسپل سروسز ہسپتال اور چیف ایگزیکٹو آفیسر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے بھی منظوری لی گئی تھی، اس منصوبے کے حق اور مخالفت میں بہت سے شہری ہیں ، شہریوں کی تعداد دیکھ کر ہی فیصلہ کر لیا جائے، جس پر مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے اکثریتی رائے نہیں دیکھنی ، عدالت کو قانون کے مطابق بتایا جائے کہ پراجیکٹ شروع کرنے سے قبل ماحولیات اور دیگر امور کے حوالے سے قواعد و ضوابط مکمل کئے گئے ہیں یا نہیں ؟ فل بنچ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومتوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 140کی خلاف ورزی اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی موجودگی میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کیسے کام کر سکتی ہیں، حکومت ایک قانون کو دوسرے قانون پر فوقیت دے رہی ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 140(اے )اور 137کے تحت ایل ڈی اے کو ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ شہر میں مختلف ٹاﺅن کمیٹیاں اور اتھارٹیز بنائی گئی ہیں جو اپنے اپنے طور پر نقشے پاس کر رہی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیئے کہ لوکل گورنمنٹ ٹیکس وصول نہیں کر سکتی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پھر لوکل گورنمنٹ سے کے ذریعے پراپرٹی ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے۔ پنجاب حکومت دو کشتیوں کی سوار ہے، ایک طرف پوری لوکل گورنمنٹ فنکشنل ہے اور دوسری جانب صرف ایک اتھارٹی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ علاقہ ایسا ہے جہاں ایل ڈی اے ترقیاتی منصوبوں پر کام کر سکتا ہے، شاہد حامد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر سمیت کراچی میں بھی سگنل فری کوریڈورز بنائے گئے ہیں جن کو مد نظر رکھ کر یہ منصوبہ اسی معیار کا بنایا جا رہاہے، ماحولیات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ منصوبے کی تکمیل کے بعد گرین ایریا 162کنال سے بڑھ کر 182کنال ہو جائے گا جبکہ دوہزار درخت مزید لگائے جائیں گے، جیل روڈ پر واقع ہسپتالوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قریب مخصوص یو ٹرن بنایا جائے گا جس سے مریضوں کو کوئی مشکلات نہیں آئیں اور روڈ کو کھلا نہیں کیا جا رہا بلکہ اس روڈ کو صرف دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے جس کے لئے محکمہ ماحولیات سے سروے کروانے کی ضرورت نہیں، انہوں نے دلائل دیئے کہ ماحولیات رولز کے مطابق دوبارہ تعمیر اور روڈ کارپٹنگ کے لئے ماحولیاتی سروے کروانے کی شرط عائد نہیں کی گئی، عدالتی استفسار پر محکمہ ماحولیات کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی قسم کے ترقیاتی منصوبے کے لئے ماحولیاتی سروے لازمی ہے، سگنل فری کوریڈور منصوبے کے حق میں گلبرگ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پرویز آئی میر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ شہریوں کے حق میں بہتر اور محفوظ ہے جس سے لاہور کے شہریوں کو خاص طور پر جیل روڈ کے رہائشیوں اور تاجروں کو فائدہ ہو گا، انہوں نے مزید موقف اختیار کیا کہ کھدائی کے بعد کام روک دیا گیا ہے جس کے باعث زیادہ آدلوگی پھیل رہی ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ایل ڈی اے کی قانونی حیثیت سے متعلق دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ترقیاتی کاموں کا اختیار ایل ڈی اے کو دینا آئین کے آرٹیکل سات، نو، چودہ اور پچیس اے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، ایک ارب روپے سے زائد کے پراجیکٹ کو شروع کرنے سے قبل تعلیم جیسے بنیادی حق کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور سولہ سال تک فری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے، فل بنچ نے ایل ڈی اے کے بجٹ اور اکاﺅنٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سگنل فری کوریڈور منصوبے اورڈویلپمنٹ اتھارٹیز کی قانونی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر مزید سماعت آج14اپریل تک ملتوی کر دی.

مزید :

لاہور -