پی آئی اے کا سنہری دور واپس لانے کا چیلنج
پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنانے کا بل منظور کر لیا گیا ہے اے این پی کے سوا کسی سیاسی جماعت نے اس بل کی مخالفت نہیں کی اس کو شکایت تھی کہ اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ چنانچہ اس نے بل کی منظوری کے وقت احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بل کی منظوری سے پہلے ایوان کو بتایا کہ تمام جماعتوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے پی آئی اے کی ہڑتال کے دوران جن ملازمین کو برطرف کیا گیا تھا یا جن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی تھی وہ ختم کر دی جائے گی اور ایک دوسرے کے خلاف جو بیانات ہیں وہ بھی واپس لے لئے جائیں گے۔ ملازمین کے تمام حقوق کا تحفظ کیا جائیگا پیپلزپارٹی نے اس شرط پر بل کی حمایت کا اعلان کیا تھا کہ پی آئی اے کے تمام گرفتار ملازمین کو رہا اور جن کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ان کے خلاف مقدمے فوری طور پر خارج کئے جائیں۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے تمام ارکان نے بل پر اتفاق کیا ہے اور سب سے مشورہ کیا گیا ہے جس کے بعد سپیکر نے ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی اور کثرت رائے سے بل منظور کرایا گیا۔ منظوری کے بعد بل صدر مملکت کے دستخطوں سے قانون بن جائے گا اور پی آئی اے کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی بن جائے گی۔ پی آئی اے کو کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل پہلے قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا جہاں حکومت کو اکثریت حاصل ہے لیکن سینٹ سے منظوری نہیں مل سکی تھی جہاں حکومت کے پاس اکثریت نہیں اس لئے اب اسے پارلیمینٹ کے مشترکہ سیشن میں منظور کیا گیا۔ پی آئی اے کی متوقع نج کاری کے خلاف ملازمین نے ملک گیر ہڑتال کر کے آپریشن معطل کر دیا تھا جس کے بعد حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کا ڈول ڈالا حکومت نے ان کے مطالبات منظور کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
پی آئی اے کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی تو بن گئی لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اب اس کمپنی کا وہ سنہرا دور بھی واپس آ سکے گا جس کا ایک زمانے میں دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ ’’با کمال لوگ، لا جواب پرواز‘‘ کا سلوگن تو اب بھی پی آئی اے کا حصہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ لا جواب پروازوں کا دور عرصہ ہوا ختم ہو گیا پی آئی اے نے جو ائر لائنیں خود کھڑی کیں وہ اس سے کوسوں آگے نکل گئیں صرف ایمریٹس کی مثال کافی ہے جو اب دنیا کی بہترین ائر لائنوں میں شمار ہوتی ہے مگر پی آئی اے پر قرضوں کا بوجھ ہے جن پر بھاری سود ادا کیا جاتا ہے اور مزید خسارہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ انتظامی خرابیوں کے باعث سالہا سال سے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ کہنا مشکل ہے کہ لمیٹڈ کمپنی بن جانے کے بعد انتظامی امور میں وہ کیا جوہری تبدیلی آئے گی جس کی وجہ سے کمپنی خسارے سے نکل کر منافع کمانے لگے گی؟نام کی تبدیلی سے زیادہ کام پر توجہ دینی پڑے گی۔ پی آئی اے کے قیام سے لے کر اب تک اس کا بہترین دور وہ تھا جب ایئر مارشل نور خان اس کے سربراہ تھے۔ کیا کوئی یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ اس وقت کارپوریشن کی کامیابی کی وجوہ کیا تھیں اور وہ کیا کاروباری نکات تھے جن پر عمل کر کے پی آئی اے مسلسل آگے بڑھتی رہی اور پھر وہ کیا خرابیاں تھیں جن کے در آنے سے ایک چلتا چلاتا ادارہ زوال پذیر ہو گیا حتیٰ کہ زوال کی پستیوں کو چھونے لگا۔ اس کی مختلف وجوہ بتائی جاتی ہیں جن میں انتظامی خرابیاں، ضرورت سے زیادہ سٹاف کی بھرتی، بے تحاشا تنخواہیں اور مراعات، پی آئی اے کے سٹوروں سے قیمتی سامان سے لے کر معمولی اشیا کی چوری وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔
حکومت نے اگر نج کاری کا منصوبہ بنایا تھا تو اس کا جذبہ محرکہ بھی یہی تھا کہ نجی شعبے کو حصص کی فروخت سے جو سرمایہ حاصل ہوگا وہ نئے جہازوں کی خریداری پر استعمال ہوگا نئے جہاز فضائی بیڑے میں شامل ہوں گے تو وہ منافع بخش روٹ پی آئی اے کو واپس مل جائیں گے جن پر پروازیں چلا کر ادارے کے خسارے کو تدریجاً ختم کر کے اسے منافع بخش ادارہ بنایا جا سکے گا۔ کوئی بھی ادارہ چاہے وہ سرکاری شعبے میں ہو، یا نجی شعبے میں اس وقت منافع بخش ہو سکتا ہے جب اسے کاروباری اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔ ملازمین اپنی تنخواہوں اور مراعات کے عوض جو سروسز ادارے کو فراہم کریں ان کی بنیاد پر ادارہ مضبوط ہو، محض سرکاری شعبہ یا نجی شعبہ کامیاب کاروبار کی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ جب پی آئی اے کامیاب تھی اور دنیا کی بہت سی ایئرلائنیں اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اس وقت بھی تو یہ سرکاری شعبے میں کام کر رہی تھی۔ تاہم یہ بات درست ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسی بہت سی کمپنیاں نجی شعبے میں کام کر رہی ہیں جو اپنے اپنے میدانوں میں کامیاب بھی ہیں اور منافع بھی کما رہی ہیں۔ امریکہ میں تو حکومت قانوناً نجی شعبے کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس کی اربوں کھربوں ڈالر منافع کمانے والی کمپنیاں نجی شعبے ہی میں کام کرتی ہیں۔ اگر کوئی کمیٹی بنا کر دنیا کی کامیاب ایئر لائنوں کے بزنس کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے ایسے نکتے مل جائیں گے جن پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں اسے دوبارہ کامیاب ایئر لائن بنایا جا سکتا ہے۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ملازمین کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ انہیں بے روزگار نہیں کیا جائے گا اور جن ملازمین کے خلاف ہڑتال کے دوران مقدمات درج کئے گئے تھے وہ بھی ختم کر دیئے جائیں گے۔ تاہم ادارے کو دوبارہ منافع بخش بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملازمتیں اتنی دی جائیں جتنی ضرورت ہے مثال کے طور پر جو کام دس افراد کر سکتے ہیں اگر اس پر سو دو سو افراد لگا دیئے جائیں تو اخراجات کا بوجھ بڑھے گا۔ اس لئے ملازمتوں میں ’’رائٹ سائزنگ‘‘ کی پالیسی اپنانی چاہئے یعنی ملازمین نہ اتنے زیادہ ہوں کہ بوجھ بن جائیں اور نہ اتنے کم ہوں کہ ان پر کام کا غیر معمولی بوجھ لاد دیا جائے۔جسے وہ خوش دلی سے اٹھا بھی نہ سکیں۔ حکومت اگر یہ سوچ رہی تھی کہ ’’کارپوریشن‘‘ کے ہوتے ہوئے وہ کام نہیں ہو سکتے جو ’’لمیٹڈ کمپنی‘‘ بنا کر کئے جا سکتے ہیں تو اب اسے آزادی عمل حاصل ہو جائے گی اور اب متعلقہ لوگوں کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ پی آئی اے میں اس کا سنہری دور واپس لائیں اور اسے ایک ایسا منافع بخش قومی ادارہ بنائیں جو نہ صرف ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرے بلکہ پاکستانیوں کو اس کی سروس پر پہلے کی طرح اعتماد اور فخر ہو۔