بڑھتے ہوئے جرائم،کون روکے گا؟
پنجاب کے طول و عرض میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع ہے اگرچہ خبروں میں جنوبی پنجاب کا ذکر زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ آپریشن جس میں انٹیلی جنس ایجنسیاں اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ مرکزی کردار کے حامل ہیں، ہر شہر میں ہو رہا ہے اور اب تک سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا یا حراست میں لیا گیا، ان سے تفتیش کی جاتی ہے اورجو حضرات بے گناہ پائے جائیں یا سنگین جرم میں ملوث نہ ہوں اور ضمانت دیں تو ان کو گھر بھیج دیاجاتا ہے، اس مہم میں ان سیکیورٹی اداروں نے بلامبالغہ بہت کامیابیاں حاصل کیں اور اہم لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے، اس مہم کے نتیجے میں دہشت گردی تو کم ہو گئی تاہم خدشات موجود رہتے ہیں، اس لئے گھریلو تحفظ کا بھی انتظام ضروری ہے۔ایک طرف یہ کامیاب مہم ہے تو دوسری طرف مقامی جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے، میڈیا کو جو خبریں دستیاب ہوتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شہروں میں اسلحہ کے زور پر راہزنی ہو رہی ہے۔ گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور شہریوں کو خوفزدہ کرکے لوٹ لیا جاتا ہے اس سلسلے میں حیرت انگیز یہ بات بھی ہے کہ لاہور کے علاقے مصطفی ٹاؤن کے ایک ہی محلے میں وقفے وقفے سے سات آٹھ وارداتیں ہو چکیں آج تک کسی کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ صوبائی حکومت نے جرائم کے خاتمے کے لئے پولیس کو جدید تربیت دینے کے علاوہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی سعی کی۔ اس کے علاوہ جرائم ہی سے نبردآزما ہونے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لئے نئی فورسز بھی بنائیں، اب نئی فورس ڈولفن کے نام سے بنائی گئی ہے جس کی تعریف بھی کی جاتی ہے، اس فورس کے جوانوں نے سٹریٹ کرائمز کے مرتکب بعض ملزموں کو گرفتار بھی کیا لیکن یا تو ان کی نفری کم ہے یا پھر محکموں میں یگانگت اور ہم آہنگی نہیں کہ یہ فورس بڑی بڑی سڑکوں ہی کے چکر لگاتی اور پڑتال کرتی ہے، اگر مقامی پولیس بھی ذمہ دار ہو جائے اور ہر ایس ایچ او اپنے اپنے علاقے کے جرائم کی سمری ایمانداری سے بھیجے تو شاید یہ لوگ بھی متعین کر دیئے جائیں اور جرائم میں کمی آ سکے لیکن ایسا نہیں ہو رہا، حکام نے اکثر دعوے کئے اور خبردار رہنے کا یقین دلایا لیکن پشاور سے کراچی تک جرائم کا یہ سلسلہ جاری ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔اس سلسلے میں ضرورت مقامی پولیس پر توجہ دینے اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ہے۔ عوام دعویٰ کرتے ہیں کہ تھانہ پولیس جرائم ختم کرنے کا تہیہ کر لے تو یہ اگر ختم نہ ہوں تو بہت کم ہو سکتے ہیں۔ راہزنی ،ڈاکوں اور ڈکیتیوں کی خبریں راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، لاہور اور دوسرے شہروں سے بھی مل رہی ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو اس حقیقت کو جاننے اور مقامی پولیس کی کارکردگی کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔