پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں تلخ کلامی
اسلام آباد سے ملک الیاس:
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پانامہ لیکس کی وجہ سے سیاسی ماحول گرم رہا ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی۔ اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی،پیپلز پارٹی کے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کیا اور وہ ان کو جواب دینے کیلئے بے تاب نظر آرہے تھے، اجلاس کے آغاز میں ہی اعتزاز احسن کو پانامہ پیپرز لیکس پر خطاب کا موقع نہ ملنے پر اپوزیشن ارکان نے پانامہ،پانامہ کے نعرے لگائے تو اسپیکر نے اجلاس کا ایجنڈا ملتوی کر کے اعتزاز احسن کو بولنے کا موقع دیدیا ، اعتزاز احسن کے الزامات کا جواب دینے مشاہد اللہ خان کھڑے ہو ئے تو اپوزیشن ارکان نے انہیں تقریر نہ کرنے دی۔ ان کی تقریر کے دوران مسلسل نعرے بازی ہوتی رہی ۔ میاں عبدالمنان اور شیخ روحیل اصغر نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر اعتزاز احسن کو تقریر کرنے سے روکا، میاں عبدالمنان نے پنجابی میں کہا کہ ’’کر لین دے کہانیاں اسی وی سناواں گے‘‘مختیار دھامرا کی آواز پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ یہاں گنڈیریاں کون بیچ رہا ہے ۔مشترکہ اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی شدید ہلڑ بازی دیکھنے کو نظرآئی۔پانامہ پانامہ سمیت ایل پی جی سکینڈل کا حساب دو اور چور چور کے نعرے گونجتے رہے ، مولانا امیر زمان کے متنازعہ جملے کی وجہ سے خواتین ارکان نے معافی مانگو کے نعرے لگائے ۔مولانا امیر زمان نے کہا کہ وزن کے حساب سے مائیک نہیں دیئے تو قد کے حساب سے ہی دے دیں جس پر حکومتی اور اپوزیشن خواتین ارکان نے مولانا کے خلاف واک آؤٹ کر دیا ، اپوزیشن ارکان نے جب پانامہ کے نعرے لگائے تو اسپیکر نے ایوان کی کاروائی ملتوی کرنے کی دھمکی دی۔ اعتزاز احسن کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نعرے لگاتے رہے اور اسپیکر ان کو چپ کرواتے رہے ۔ مشاہد اللہ خان کی تقریر کے دوران جب انہوں نے اعتزاز احسن کو ہدف تنقید بنایا تو اپوزیشن ارکان نے چور چور کے نعرے لگائے جس پر اسپیکر نے مشترکہ اجلاس کی کاروائی اگلے صدارتی حکم نامے تک ملتوی کردی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ اعتزازاحسن کی تقریر سن کر لگ رہاتھا کہ وہ نوازشریف کی بجائے بے نظیر بھٹو اوررحمن ملک کے خلاف خطاب کررہے ہیں کیونکہ آف شور کمپنیوں کے سکینڈل میں نوازشریف کا نہیں بے نظیر اوررحمان ملک کا نام آیاہے،اعتزازاحسن آج جمہوریت کا ساتھ دینے کی بات کررہے ہیں ،انہوں نے تو پھانسی کے وقت بھٹو کا ساتھ نہ دیا،بھٹو کو پھانسی کے وقت یہ اسکو کوہالہ پر لٹکانے کے نعرے لگانے والوں کے ساتھ تھے،لاہور میں نصرت بھٹو کا سرپھاڑا گیا تو یہ سرپھاڑنے والوں کے ساتھ تھے۔ بڑا آدمی مجبوراًفائدہ نہیں اٹھا تالیکن اعتزازاحسن نے ایوان میں اتفاق رائے کے لئے حکومتی مجبوری کا فائدہ اٹھایا،اعتزازاحسن کو جب ضرورت تھی تو لاہور میں ووٹ لینے کے لئے اپنے انتخابی پوسٹر پر بے نظیر کے ساتھ نوازشریف کی تصویر لگائی تھی،انہوں نے کبھی مشکل وقت میں اپنی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا۔نوازشریف نے ترقی کا راستہ چن لیا ہے ،پی پی پی گند ڈال کر گئی ہم صاف کررہے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے آف شورکمپنیوں کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ تمام ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کے آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے،آڈٹ کیلئے کمیٹی برائے اخلاقیات بننی چاہیے جس کی سربراہی جسٹس (ر) وجیہ الدین یا جسٹس(ر) طارق محمودکو دینی چاہیے ، اگر کوئی خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزرتا تو اسے عوامی نمائندگی کا کوئی حق نہیں، میں اپنے آپ کو سب سے پہلے احتساب کیلئے پیش کروں گا، آف شور کمپنیوں کا احتساب علیحدہ ہونا چاہیے اس میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے،پہلے اپوزیشن پانامہ دستاویزات پر اپنی کنفیوژن دور کرے کیونکہ ایک جماعت کہتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور دوسری جماعت ایف آئی اے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے،ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما و قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بھی للکاردیا کہ جس دن انہوں نے میرے خلاف بات کی انکی فائلیں کھول دونگا، اعتزاز احسن اور سید خورشید شاہ کے خلاف تحقیقات ہوئیں تو ان کو بڑی تکلیف ہو گی، ایف آئی اے پانامہ دستاویزات اور آف شور کمپنیوں کے معاملے کی تحقیقات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،مے فیئر فلیٹ سے بات شروع کرنے والے اپنے گریبان میں جھانک کر سرے محل کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے،تحریک انصاف کے جلسے کے معاملے پر بھی وزیرداخلہ نے دوٹوک اعلان کردیا کہ تحریک انصاف کو نہ ڈی چوک میں جلسہ کرنے دیا جائے گا اور نہ ہی ایف نائن پارک میں، بتایا جائے کہ جلسہ کرنے کی مجبوری کیا ہے،تحریک انصاف کے 24اپریل کے جلسے کیلئے عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر جگہ کا تعین کرنے کو تیار ہوں لیکن اسلام آباد کے شہریوں کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہونے دیں گے،اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومتی رٹ ہر حال میں قائم کی جائے گی، جلسے جلوسوں کے باعث شہریوں کا کاروبار زندگی شدید متاثر ہوتا ہے، موبائل فون سروس بند کرنے کے معاملے پر مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے لیکن ہمیں دوسروں کا احساس کرنا ہو گا۔
دوسری طرف تحریک انصاف ہرصورت ایف نائن پارک میں جلسہ کرنے پر بضد ہے ادھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کو جلسے کی اجازت دے دینی چاہیے، پاکستان میں کرپشن اور ٹیکس چوری دو بہت بڑے مسئلے ہیں کرپشن کے خلاف اب ہر سطح تک جاؤں گا اور اس معاملے پر اب مٹی نہیں ڈال سکتے،جماعت کو تیار کر رہاں ہوں کہ پوری توجہ رائیونڈ مارچ پر ہو اور24اپریل کے جلسے میں اگلا لائحہ عمل بتاؤں گا، شوکت خانم ادارہ خسارہ پورا کرنے کے لئے آف شور کمپنی کا پیسہ رکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ تو ملکی سربراہوں کے آف شور کمپنیاں بنانے پر مچا ہوا ہے ۔اپنی چوری چھپانے کے لئے ایک ٹرسٹ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، پاناما لیکس سے دنیا ہل گئی ہے، اس میں دنیا کے 8 سربراہوں کے نام آ گئے ہیں، آئس لیند اور یوکرائن کے سربراہوں پر الزام ثابت نہیں ہوئے لیکن پھر بھی استعفیٰ دے دیا۔