انتہا پسندی اور سیاسی مصلحت

پاکستان کے دل لاہور کے ایک گنجان اور پر رونق علاقے اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال پارک میں دہشت گردوں نے شام کے وقت قیامت ڈھادی۔ دہشت گردوں نے پارک میں سیر و تفریح کو آئے معصوم اور نہتے لوگوں کو جن میں بچے، جوان، خواتین شامل تھے بے دردی سے سفاکیت کا نشانہ بنایا تو پوری قوم دکھ کی اتھاہ وادی میں اُتر گئی۔ دہشت گردوں کی یہ واردات کسی طور قابل برداشت نہیں تھی۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ پنجاب میں دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھر پور آپریشن کے فیصلہ میں دیر کی جاتی۔ اگرچہ آپریشن کے فیصلے میں عسکری قیادت کو سیاسی قیادت پر فوقیت رہی۔ دہشت گردوں کا گلشن اقبال پارک پر حملہ جس کے نتیجے میں بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ وسیع پیمانے پر آپریشن کا متقاضی تھا دونوں قیادتوں کی طرف سے آپریشن کا فیصلہ کیا جانا اُمید افزا ہے۔دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی قوم موت بانٹنے والوں اور اُن کے سہولت کاروں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا چاہتی ہے۔ یہ چھٹکارا سول و عسکری قیادت کے بڑے فیصلوں کی وجہ سے ممکن ہو سکتا ہے جب عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب آپریشن کا فیصلہ کیا تو سول قیادت نے آخری موقع کے طور پر دہشت گردوں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ مذاکرات کا دور چل رہا تھا کہ دہشت گردوں کی طرف سے پے در پے حملوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ جو کسی طور قابل قبول نہ تھا۔ دہشت گردوں کی طرف سے تمام سرحد یں پار کر لی گئیں اور ریاست کے امن کی خواہش کو کمزوری سمجھتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ پر بڑے منظم انداز میں حملہ کر دیا۔ بس پھر ریاست نے فیصلے میں فوری تبدیلی کی اور مؤثر کن آپریشن کا فیصلہ کیا۔
ایسٹر کے دن گلشن اقبال پارک میں دہشت گردوں کی طرف سے جو قیامت ڈھائی گئی اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی کہ ان کے خلاف پنجاب میں کامیاب آپریشن کی شروعات نہ کی جاتیں جس طریقے سے ملکی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے گلشن اقبال پارک کے سانحہ پر ریسپانس آیا اسی طرح کا ریسپانس بہت ضروری تھا۔ کیونکہ ریاست اور سکیورٹی اداروں کی یہ ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ اگر ریاست اور اس کے سکیورٹی کے ادارے ریاست کے باشندوں کے تحفظ سے ہاتھ کھینچ لیں یا وہ اپنی ذمہ داری مکمل طور پر نہ نبھا سکیں تو ایسی ریاست اور اداروں کا اپنا وجود سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ پنجاب میں آپریشن کے فیصلے پر کنفیوژن پھیلی جو قطعی طور پر پیدا نہیں ہونا چاہیے تھی اور اس سے بحث شروع ہو گئی کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں جس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہونا تھا۔ یہ افواہ اُس وقت دم توڑ گئی جب سول و عسکری قیادت کے ترجمانوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وہ دوسری بات ہے کہ عسکری قیادت کے ترجمان نے بھر پور پریس کانفرنس کی۔ بس یہ خیال رکھنا ہو گا کہ پنجاب میں ہونے والا آپریشن اُس انداز میں متنازعہ صورت حال اختیارنہ کر جائے۔ جیسا سندھ میں ہوا کہ وہاں حکومت اور رینجرز کے مابین تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ یہ خدشہ اس لیے پیدا ہوا کہ پنجاب میں آپریشن کے حوالے سے تاخیر سے کام لیا گیا۔
جس دن گلشن پارک میں دھماکہ ہوا اُسی دن شہر اقتدار میں ایک مظاہرہ ہوا، ایسا مظاہرہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک طرف بچوں کے اعضاء بکھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اسلام آباد میں اخلاق کی دھجیاں، قوم بکھر گئی کہ کس کا ماتم اُن پر واجب ہے۔ معصوم جانوں یا حرمت دین کا۔ یہ مظاہرہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہوا۔ وزیر داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ریڈ زون میں احتجاجی جلسے یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن کیا حکومت اس پر سختی سے عمل کر پائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر شخص کے ذہن میں ہے۔ ایک طرف چودھری نثار میڈیا کے ذریعے پوری قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہر حال میں ریڈ زون خالی کروالیا جائے گا۔ دوسری طرف حکومتی وزیر ان لوگوں سے مذاکرات میں مشغول تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ حکومت کی انتہا پسندی پر پالیسی میں کمزوری ہے۔
سیاسی مصلحتوں پر مبنی کمزور پالیسی کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے شہری دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ لاہور کے گلشن پارک میں بم دھماکے اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے قبضہ کے بعد دہشت گردی سے پوری طرح نمٹنے کے لیے پاکستانی ریاست کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اُس جگہ پر ہے کہ کئی دہائیوں تک دہشت گردی اور انتہا پسند عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہنے کا خدشہ ہے۔ لیکن گزشتہ پونے دو سال سے جاری ضرب عضب آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں تشدد دہشت گردی اور بم دھماکوں وارداتوں کے پیش نظر ان خدشات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی اور ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر بھی ضرب عضب کے ہاتھوں ان کی ناکامی کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ انتہا پسند عناصرکی طرف سے لاہور جیسے حملوں کو خارج از مکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے نیٹ ورک کو تیز کرنا ہو گا کیونکہ ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں دہشت گردوں نے کئی روپ دھار رکھے ہیں۔