دیکھئے لاہور بائی جون 2018ء ۔۔۔ چیف انجینئر ایل ڈی اے کی نگاہوں سے

دیکھئے لاہور بائی جون 2018ء ۔۔۔ چیف انجینئر ایل ڈی اے کی نگاہوں سے
دیکھئے لاہور بائی جون 2018ء ۔۔۔ چیف انجینئر ایل ڈی اے کی نگاہوں سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور کا نقشہ انشا اللہ صرف ایک برس بعد بلکہ جون 2018ء میں کیسا ہو گا اسے اگر آج ایل ڈی اے کے اپنے ہی تالاب کے مینڈک (پنجابی میں گھڑے کے ڈڈو) چیف انجینئر اسرار سعید(بلکہ پر اسرار سعید) کی آنکھوں سے دیکھیں تو لاہور پریس کلب کی ٹیم کو ہی نہیں بلکہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی ٹیم کو وہ جس ڈبل ڈیکر ٹور ازم کی بس میں بٹھا کر لاہور کی سیر کرائیں گے اس کی تفصیل آج پیشگی کے طور پر میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ویسے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ انجینئرنگ کا شعبہ سول حکومت میں ہو یا فوجی حکومت میں ان شعبوں میں کہیں بھی پیشگی وغیرہ کا کبھی رواج نہیں ہے۔ عموماً سب کچھ بلکہ معاملات کام مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ لاہور کا معاملہ چونکہ گزشتہ آٹھ نو سال سے ذرا مختلف ہے لہٰذا سارے ملک اور ساری سیاست کی نگاہیں اسی شہر پر جمی ہوئی ہیں۔ لاہور پریس کلب میں میری ملاقات چین سے آئے ہوئے (پرائیویٹ طور پر) دو سینئر صحافیوں سے ہوئی تو انہوں نے بھی چیف انجینئر ایل ڈی اے کی چین میں حالیہ کچھ مصروفیات کا ذکر کیا جو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے ہمراہ کچھ ہی عرصہ قبل چین گئے ہوئے تھے۔


لاہور میں جو میگا پراجیکٹس ایک عرصہ سے چل رہے ہیں اور جن میں سے میٹرو بس (بقول چوہدری پرویز الٰہی جنگلا بس) کا منصوبہ لاہوریوں کی کافی ضرورتیں بھی سستے داموں پوری کر رہا ہے مکمل ہو کر سب کے سامنے ہیں اور اب ایک برس کے اندر اندر پاکستان کے پہلے میٹرو ٹرین منصوبے اورنج لائن کو بھی مکمل ہو کر ساری دنیا کی نگاہوں کے سامنے آنا ہے اس کا ساٹھ فیصد سے زائد کام تو مکمل بھی ہو چکا ہے اور جو کام باقی ہے وہ ایسا ہے جس میں زیادہ وقت درکار نہیں بلکہ اب تو لائٹیں بچھانی ہیں۔ انجن اور ڈبے لانا اور سٹیشنوں کی تعمیر کا کام ہی باقی رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن ممالک میں یہ منصوبے ہمارے ملک پاکستان بننے سے قبل ہی موجود ہیں وہاں پر بھی کام شروع کرنے اور ان میگاپراجیکٹس کو مکمل کرنے میں کافی وقت لگا تھا اور اسی حساب سے فنڈز بھی۔ اس وقت ملک بھر کی نگاہیں لاہور کے اورنج ٹرین منصوبے پر ہیں اور اس کے سول ورکس پر اب تک لگ بھگ 50ارب سے زائد کا سرمایہ لگایا بھی جا چکا ہے۔کاہنہ کاچھا، ڈیفنس روڈ ، ریلوے کراسنگ پر ڈیڑھ کلو میٹر طویل فلائی اوور کی تعمیر بھی جاری ہے اور رچنا ٹاؤن کالا شاہ کاکو تک جی ٹی روڈ پر چھ کلو میٹر طویل ایکسپریس وے بھی مکمل ہونے کو ہے۔ راوی ٹول پلازہ سے امامیہ کالونی ریلوے کراسنگ کے بعد رچنا ٹاؤن تک یہ ایکسپریس وے دونوں اطراف سے ٹریفک کے لئے تین تین لین پر مشتمل ہو گی اور ان کے درمیان میٹرو بس کے لئے ڈبل لین کا خصوصی راستہ مہیا کیا جائے گا۔ ننکانہ اور شیخوپورہ کو بھی ان ترقیاتی کاموں میں شامل کر لیا گیا ہے جہاں نفیس قسم کے سٹیڈیم بھی عنقریب مکمل ہونے کو ہیں۔ اسی طرح ایل ڈی اے نے اپنی ایجنسی ٹیپا کے ذریعے لاہور کے جنوبی علاقوں کو براہ راست موٹر وے سے ملانے کے لئے بھی ڈھائی ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ کرنے کے منصوبوں کو پوری تیزی کے ساتھ مکمل کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔


جس زمانہ میں احد چیمہ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے تھے انہوں نے ہی موجودہ چیف انجینئر کا انتخاب کیا تھا اور ان کے اس چناؤ کی اس لئے بھی داد دینی چاہئے کہ انہیں تو میاں نواز شریف نے ہلال امتیاز کے قومی نشان سے بھی نوازا ہے اور بارہا ان کی کارکردگی کی متعدد بریفننگوں کے دوران بھی تعریف کی ہے۔ میرے ملازمت کے زمانے میں نوجوان احد چیمہ اپنے کلاس فیلو علی نواز چوہان کے ہمراہ ایک آدھ بار میرے دفتر میں بھی آئے تھے۔ اس وقت یہ صحافت میں ایم اے بلکہ ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری بھی۔ اس وقت بھی ان کا شمار بے حد محنتی طالبعلموں میں کیا جاتا تھا۔ ان کے لگائے گئے چیف انجینئر نے اب اپنے تعلقات کا دائرہ ماشا اللہ مستقبل کے حکمرانوں مثلاً حمزہ اینڈ کمپنی سے بھی منسلک کر رکھا ہے اور وہ ماشا اللہ جنابہ تہمینہ سمیت بہت سی بیگمات تک بھی رسائی رکھتے ہیں کیونکہ وہ سابق ڈپٹی کمشنر لاہور شاہد رفیع (ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری پانی و بجلی ) کے بھی نیازمندوں میں سے ہیں،لہٰذا بے پناہ ترقیاتی کاموں میں سے اپنا قیمتی وقت نکال کر وہ ان سلسلوں کو بھی نبھاتے رہتے ہیں۔


جناب چیف انجینئر کی آنکھوں سے جو نقشہ میں لاہور کا دیکھ رہا ہوں انشاء اللہ اس کا ثمر بھی انہیں کسی نہ کسی قومی نشان کی شکل میں ضرور ملے گا۔ وہ خواہ پرائڈ آف پرفارمنس ہو یا کسی اور تمغہ کی شکل میں انہیں ضرور ملے گا۔ تاہم اس سے پہلے اپنے سوئٹزر لینڈ والے تعلقات کو بھی مضبوط کر لیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو جناب آصف علی زرداری سے مدد لے لیں۔ زرداری کو محترمہ بے نظیر کے پہلے دور میں (1988-90) جناب نواز شریف کے وزیر حسین حقانی نے مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا تھا۔ جبکہ دوسرے دور میں(1993-96ء) زرداری صاحب کو مسٹر سینٹ پر سینٹ کا بھی خطاب مل گیا ہے۔ ایل ڈی اے کی یونین کے پاس بھی ماشا اللہ آج کل کافی لوگوں کے لئے خصوصی خطابات موجود ہیں۔(جناب پر اسرار صاحب کے لئے بھی) ممکن ہو تو تھوڑا وقت نکال کر ان کی تفصیل بھی منگوا لیں۔ ورنہ اپنے ہی کسی پی آر او سے پتہ کرا لیں۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو اگلے برس تک بطور چیف منسٹر وزیر اعظم بھارت مسٹر نریندر مودی کا بھی ریکارڈ توڑ چکے ہوں گے جو کہ بھارتی صوبہ گجرات کے 12برس تک چیف منسٹر رہ چکے ہیں وہ بھی لاہور کی ترقی اور نئے لاہور کی ایک جھلک دکھانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ اگلے برس جون میں میڈیا کو نئے لاہور کی نئی تصویر دکھانے خود بھی باہر نکلیں تاہم تصویر ویسی ہی ہو گی جیسی چیف انجینئر ایل ڈی اے کے پاس بھی موجود ہے اور ان کی آنکھوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ سال 2010/2011میں تعینات موجودہ چیف انجینئر کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب لاہور کا ترقیاتی بجٹ اس وقت پچاس ساٹھ کروڑ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا اس وقت تو ان کے پاس اپنے ماتحتوں اور عملہ کے لئے وقت تھا لیکن آج اسی عملہ کے لئے بھی اور ان پرانے ٹھیکیدارو ں کے لئے بھی وقت نہیں ہے جنہوں نے انہیں کامیاب کرانے کے لئے رات دن ایک کیا اور ساری ساری رات بھی لاہور میں کام جاری رکھا تاکہ ٹریفک کی بھی روانی جاری رہے اور منصوبے بھی وقت پر ہی مکمل ہو سکیں۔ آج حالت یہ ہے کہ جس چٹھی نمبر چیف انجینئر ایل ڈی اے (پی ایس 1040مجریہ 28ستمبر 2016ء جس ایم ایس محمود بلڈرز(سندھو ماربل فیروز پور روڈ لاہور) کو جس کام کا ٹھیکہ دیا گیا اور جسے مکمل ہوئے بھی اب کئی مہینے گذر چکے ہیں ان کے بل بھی آپ کی ٹیبل سے نہیں آ رہے حالانکہ نہ تو فنڈز آپ کے لئے پرابلم ہیں اور نہ ہی ڈی جی ایل ڈی اے جیسا اللہ لوگ افسر ۔ آپ کسی کے لئے نیک سوچیں گے تو اوپر والا بھی آپ کو یہاں سے نیک نامی اور آسانی کے ساتھ جانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ یاد رکھیں ایک مرتبہ ایک بادشاہ کا گذر قبرستان سے ہوا تو چلتے ہوئے اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ یہ کسی کے سر کی پرانی کھوپڑی تھی۔ اس میں سے آواز آئی کہ بھائی۔ آہستہ چلو میں بھی اپنے زمانہ میں بادشاہ تھا! ایل ڈی اے میں کئی چیف انجینئر آئے اور چلے گئے۔ کئی آئیں گے اور چلے جائیں گے۔ نام اسی کا یہاں باقی رہے گا جو فائل میز پر رکھنے کی عادت کا حامل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس قدر معاملات سے بے سروکار کہ اپنا کام ہونے پر بھی دوسروں کے کاموں سے لاتعلقی برتنے کی عادت ڈالے ۔ میں نے ویسے ایل ڈی اے کی ملازم میڈیا ٹیم سے گذارش کی ہے کہ لاہور میں گلبرگ، والٹن روڈ ، ائیرپورٹ کی اطراف میں اور دیگر درجنوں اطراف میں جہاں جہاں فلائی اوورز اور انڈر گراؤنڈ گذرگاہیں ٹریفک کی روانی کے لئے بنائی گئی ہیں اس سب کی فلم بنا کر دس منٹ کی ایک ڈاکو منٹری فلم اب چینلوں پر بھی چلائی جائے تاکہ کم از کم لاہور کے شہریوں کو تو معلوم ہو سکے کہ ٹریفک سگنل فری کتنے علاقے ہیں۔ ٹریفک کی روانی میں گھنٹوں کا فرق پڑ چکا ہے اور اب آپ پہلے سے کہیں جلدی آ جا سکتے ہیں۔ اس طرح اپنے چیف اور ان سے کام سیکھنے والے اپنے ڈی جی کو بھی صدیق ٹریڈ سنٹر والے پل پر لے کر کسی اچھے فوٹو گرافر سے زوم(200M) لگوا کر پریس کے لئے ان کی ایسی یادگار تصویر جاری کریں کہ جس کے عقب میں صدیق ٹریڈ سنٹر بھی دکھائی دے اور اپنے افسران خصوصاً انجینئرنگ ٹیم کے ہنستے کھیلتے افسران بھی صاف دکھائی دیں، یہ الگ بات ہے کہ آنے والے دنوں میں ایل ڈی اے کی یونین ان کے جو کتابچے شائع کرا رہی ہے وہ بھی شاید لاکھوں میں ہی شہریوں میں تقسیم ہوں۔ یہاں تک کہ ان کی بھنک تو اب چین کے شہریوں تک بھی جا پہنچی ہے کیوں کہ ’’ارمچی‘‘ میں جو طلباء طالبات ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں بھی اس قدر معلومات حاصل ہیں کہ اللہ کی پناہ، وجہ اس کی یہ ہے کہ چین کی جو کمپنیاں لاہور کے منصوبوں پر فنڈز لگا رہی ہیں ان کے بچے بھی انہیں درسگاہوں میں ہمارے پاکستانی طلباء و طالبات کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ان کی آپس میں ان مٹ دوستیاں بھی ماشا اللہ قائم و دائم ہیں!

مزید :

کالم -