فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 58

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 58
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 58

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میاں جاوید قمر نے حسن طارق کی تہذیب‘انجمن اور امراؤ جان ادا جیسی فلمیں ریلیز کی تھیں۔ وہ خود بھی فلم ساز تھے۔ پنجابی میں فلم جیرا بلیڈ بنائی جس میں منور ظریف نے مرکزی کردار اد ا کیا تھا۔ یہ فلم بہت کامیاب ہوئی۔ ان کی ایک اورفلم لائسنس بھی ہٹ ہوگئی تھی۔ ہم نے بھی ان کے لیے ایک فلم نمک حرام بنائی تھی۔ ہم اس کے مصنف اور ہدایت کار تھے۔ اس فلم کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ اردو فلمیں دیکھنے والے اسے پنجابی فلم سمجھتے رہے اور سینما میں نہ گئے۔ ادھرپنجابی فلم دیکھنے والے جب سینما میں پہنچے اور اردو فلم دیکھنے کو ملی تو وہ بھی خوش نہ ہوئے۔ یہ ایک طنزیہ کامیڈی تھی۔ پہلے اس میں وحید مراد اور زیبا مرکزی کرداروں کے لیے چنے گئے تھے مگر ہمیں انگلستان جانا تھا اور ان دونوں فن کاروں کی تاریخیں ملنا دشوار تھا۔ ہمارے اصرار کے باوجود میاں جاوید نے انتظار کرنے کے بجائے منور طریف اور آسیہ کو کاسٹ کر لیا۔ ساتھ میں دوسری ہیروئن نشو کو بنایا۔ ان فنکاروں کے پیش نظر ہم نے کہانی میں تبدیلیاں کرنی شروع کر دیں اس لئے کہ وحید مراد اور زیبا کی اداکاری کا انداز منور ظریف اور آسیہ سے یکسر مختلف تھا۔ یہ فلم بہت بھاگ دوڑ میں بنائی گئی تھی۔ بے چارہ منور ظریف رات کر کبھی دس بجے کبھی بارہ بجے دن بھر کی شوٹنگ سے فارغ ہو کر ہمارے سیٹ پر پہنچتا تھا اور ساری رات شوٹنگ کرتا تھا۔ اگلے دن پھر صبح سے مصروف ہو جاتا تھا۔ یہی حال آسیہ کا بھی تھا۔ اکثر وہ دونوں شاٹ کے درمیان میں سوجاتے تھے۔ انہیں جھنجوڑ کر جگانا پڑتا تھا۔ مگر اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ ان کی عدیم الفرصتی راہ میں مشکل بن گئی تھی مگر دونوں نے بہت اچھی اداکاری کی۔

قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نشو اس زمانے میں ماں بننے والی تھیں۔ ہم آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لئے اسلام آباد گئے تو یہ راز فاش ہوا۔ انہیں پہاڑوں پر بھی چڑھنا تھا۔ کشتی میں بھی سوار ہونا تھا۔ جھیل کے کنارے بھاگ دوڑ بھی کرنا تھی مگر اس حالت میں کیا ہو سکتا تھا۔ وہ تو ہر قسم کا کام کرنے پر آمادہ تھیں مگر ہمارا دل نہ مانا اور ہم نے شوٹنگ کی نوعیت ہی بدل دی۔
نشو اس زمانے میں کھوئی کھوئی سی رہتی تھیں۔ لاہور سے جس سین کی شوٹنگ کے لئے بطور خاص اسلام آباد گئی تھیں اس کا کنٹی نیوٹی کا لباس لاہور ہی میں بھول گئیں۔ اس قسم کے لطیفے وہ عموماً کرتی رہتی تھیں۔ صبح شوٹنگ کے لئے آتیں تو پتا چلتا کہ اپنی وگ گھر بھول آئی ہیں۔ دوبارہ گاڑی بھیجی جاتی اور شوٹنگ روکنی پڑتی۔ یہ فلم مکمل ہو گئی اور ہم یورپ چلے گئے۔ ہماری غیر موجود گی میں یہ ریلیز ہوئی اور زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکی مگر میاں جاوید قمر نے منافع کما لیا۔
میاں صاحب نے ہمیں فلم کی کہانی لکھنے کے لئے بلایا تو ہم نے مصروفیت کا عذر کیا۔ وہ اصرار کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر کہانی لکھوائیں گے تو ہم سے۔ پھر انہوں نے انکشاف کیا۔ ’’آفاقی صاحب‘ آپ کی فلم ’’ کنیز‘‘ مجھے اتنی پسند تھی کہ میں نے درجنوں بار دیکھی۔ اس کے مکالمے مجھے زبانی یاد ہو گئے تھے۔ ‘‘
ہم نے کہا۔ ’’اچھا تو سنائیے۔‘‘
’’کون سے سین کے ؟‘‘
’’جو بھی آپ مناسب سمجھیں۔‘‘
میاں صاحب نے ہمیں فوراً محمد علی‘ وحید مراد اور صبیحہ خانم کے مکالمے سنانے شروع کر دیے اور ہم حیران رہ گئے۔
ہم نے آپکو بتایا ہے کہ ان دنوں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ اچھی فلموں کے مکالمے بھی لوگوں کو یاد ہو جاتے تھے۔ کئی فلم بین محض چند مخصوص سین دیکھنے کے لئے ہی بار بار سنیما میں جایا کرتے تھے۔ انور کمال پاشا اور ریاض شاہد کے لکھے ہوئے مکالمے لوگوں کو اتنے پسند آتے کہ ہر جگہ ان کا استعمال شروع کر دیتے تھے۔ ریاض شاہد کی فلم ’’بدنام‘‘ کے مکالمے تو ضرب المثل بن گئے۔ مثلاً نیلو سے علاؤالدین کے یہ مکالمے۔
’’کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے‘ کون لایا ہے یہ جھمکے‘ کس نے دیے ہیں یہ جھمکے‘ کیوں پہنے ہیں یہ جھمکے ؟‘‘
یا پھر ’’فرنگی‘‘ میں سدھیر کا یہ مکالمہ۔ جب مخالف گروہ کے آدمی سدھیر کو اچانک دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔
’’کون اکبر خان؟‘‘
’’پہچانو تو بھی اکبر خان‘ نہ پہچانو تب بھی اکبر خان۔‘‘
کئی فلموں میں مکالمے بازی ضرورت سے زیادہ بھی ہو جاتی تھی۔ منیر نیازی نے اس زمانے میں ایک مزاحیہ کالم لکھا تھا جس میں یہ لکھا کہ ہماری فلموں میں کردار‘ کردار سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ مکالمہ‘ مکالمے سے مخاطب ہوتا ہے۔ مثلاً ایک مکالمہ زمین پر کھڑا ہے۔ دوسرا مکالمہ گھوڑے پر سوار ہے۔ تیسرا مکالمہ درخت پر چڑھا ہوا ہے۔ چوتھا مکالمہ کار پر سوار ہے وغیرہ وغیرہ۔ کسی لحاظ سے یہ بات درست بھی تھی۔ بعض فلموں میں حقیقتاً اتنے زیادہ مکالمے ہوتے تھے کہ کوفت ہونے لگتی تھی اور یہ مکالمے برائے مکالمہ ہوتے تھے۔ یہ تھیٹر کے ڈرامے کا انداز تھا۔ جو کافی عرصے تک پاکستانی فلموں میں رائج رہا۔ دراصل ہندوستان میں فلمی صنعت کے کرتا دھرتا تھیٹر کے سیٹھ ہی تھے۔ تھیٹر والوں نے فلمیں بنانی شروع کیں تو وہی انداز اپنایا۔ ویسی ہی کہانیاں‘ ویسے ہی موضوعات‘ ویسا ہی ماحول اور مزاج‘مکالمے بھی اسی قسم کے ہوتے تھے۔ آغاز میں لکھنے والے بھی تھیٹر کے ڈرامے لکھنے والے لوگ ہی تھے۔ اس زمانے میں آغا حشر کے ایسے مکالمے بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔
’’توفیق کس حال میں ہے؟‘‘
’’شیر لوہے کے جال میں ہے۔‘‘
کافی عرصے تک بمبئی اور کلکتہ کی فلمی صنعت میںیہی انداز رہا۔ بعد میں رفتہ رفتہ تبدیلی پیدا ہوئی اور روز مرہ کی زبان بھی استعمال ہونے لگی۔
تنویر نقوی مایہ ناز شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے بمبئی کے فلم سازوں کی پسند اور استعداد کے بارے میں یہ لطیفہ سنایا تھا کہ ایک صاحب فلم ساز کو کہانی سنانے گئے۔ بہت زور لگایا، کافی دیر تک سناتے رہے مگر فلم ساز کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آخر مصنف نے جوش میں آکر کہا۔
ہیرو نے کھڑکی میں سے پکار کر کہا ’’دلبردلبر‘‘۔
یہ سن کر فلم ساز ایک دم کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ’’کیا کہا‘ دوبار دلبر؟‘‘
مصنف ’’جی سیٹھ صاحب دوبار دلبر۔‘‘
فلم ساز ’’اس کا جواب ہی نہیں ہے۔ یہ کہانی منظور‘ ایڈوانس لے لو۔‘‘
پرانے دور میں بہت اچھی اور بامقصد فلمیں بنتی رہی ہیں مگر یہ نہیں کہ بے مقصد اور محض تفریحی فلمیں نہیں بنا کر تھیں۔ فلمیں تو ہر قسم کی بنا کرتی تھیں۔ بہت سی فلموں کا مقصد محض اور محض تفریح ہوتا تھا۔ مار دھاڑ سے لبریز فلمیں بھی کافی تعداد میں بنائی جاتی تھیں۔
ناڈیا ایک یہودی ایکٹریس تھی‘ لمبی تڑنگی‘ رنگ گورا بھبوکا‘ جسم نہایت متناسب‘ بال مغربی انداز میں ترشے ہوئے‘ آنکھیں نیلی اور بے حد مقبول ہیروئن تھی۔ ’’ہنٹر والی‘ طوفان میل‘ جنگل کوئین ‘‘ وغیرہ اس کی مشہور فلمیں تھیں۔ تماشائی اس کے دلدادہ تھے۔ اس کی فلموں میں جان کاؤس جنگجو قسم کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔ وہ پہلوان نما ہیرو تھے اور بہت بہادری کے کارنامے سر انجام دیتے تھے۔ اکثر فلموں میں وہ جنگل میں ٹارزن کی طرح محض لنگوٹی پہن کر گھومتے پھرتے تھے۔ کبھی درندوں سے لڑتے‘ کبھی دشمنوں کے دانت کھٹے کرتے۔ جان کاؤس کے سلسلے میں ایک لطیفہ یہ بھی مشہور ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مصنف اور ہدایت کار ’’(اس وقت وہ فلموں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے ) شوکت ہاشمی بمبئی سے لاہور پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر کچھ لوگوں نے انہیں جان کاؤس سمجھ لیا۔ ان سے تصدیق کی تو انہوں نے بھی کسی کا دل توڑنا گوارا نہ کیا اور تصدیق کر دی۔ بس پھر کیا تھا لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور آؤ بھگت شروع کر دی۔
کسی کو شک گزرا تو پوچھا کہ جناب فلموں میں تو آپ بہت طاقت ور اور تگڑے نظر آتے ہیں مگر دیکھنے میں کافی ’’ماٹھے‘‘ ہیں۔
انہوں نے جواب دیا۔ ’’یہ سب کیمرا ٹرک کی کرامت ہے۔‘‘
بعد میں یہ راز کھل گیا مگر کافی عرصے تک یہ کہانی لوگ مزے لے لے کر سنتے اور سناتے رہے۔
اس دور میں ہر طرح کی فلمیں بنا کرتی تھیں۔ جادوئی فلموں کا بھی رواج تھا جو کہ اب دیکھنے میں نہیں آتیں۔ ان فلموں کے ہدایت کاروں کو یہ آسانی تھی کہ اگر کوئی اداکار یا ہیرو‘ ہیروئن نخرہ کرتا تھا تو وہ اسے فلم میں طوطا یا مینا بنا دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ساری فلم میں وہ اداکار پنجرے میں بند نظر آتا۔ اسی لئے اداکار ان ہدایت کاروں کے غضب سے ڈرتے تھے کہ نہ جانے کب ناراض ہوجائیں اور طوطا بنا دیں۔ ڈراؤنی فلمیں بھی بنائی جاتی تھیں اور کافی ڈراؤنی ہوتی تھیں۔
ہم آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھتے تھے اور میرٹھ میں رہا کرتے تھے مگر ہر ہفتے چھٹی کے دن میرٹھ سے دہلی جاتے جہاں ہماری بڑی بہن رہتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اور ہمارے بہنوئی بہت خوش ہوتے تھے اور ہماری خوب آؤ بھگت کرتے تھے۔ ریستوران میں کھانا کھلایا جاتا تھا مگر سب سے بڑی خاطر یہ تھی کہ ہمیں ایک فلم دکھائی جاتی تھی۔ ایک بار ہم دہلی گئے تو ان دونوں کا جھگڑا ہو گیا تھا اور آپس میں بول چال بند تھی۔ دونوں نے الگ الگ ہمارے ساتھ بہت پیار کا برتاؤ کیا مگر بول چال بند ہونے کی وجہ سے نہ تو ریستوران گئے اور نہ ہی فلم کا پروگرام بن سکا جو ہمارے لئے بہت بے چینی اور پریشانی کا باعث تھا۔ خدا خدا کر کے آٹھ بجے کے قریب ان کی بول چال کھل گئی۔ کھانا تو گھر میں موجود تھا مگر اب ہم روٹھ گئے کہ فلم دیکھے بغیر نہیں سوئیں گے۔ اچھی فلمیں کافی فاصلے پر لگی ہوئی تھیں۔ ان دونوں نے ہمیں بہت سمجھایا کہ اب کسی فلم کا ٹکٹ نہیں ملے گا مگر ہم کہاں ماننے والے تھے۔ ہمارے گھر کے نزدیک ایک سنیما تھا جس میں فلم ’’بھاگتا بھوت‘‘ لگی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ دونوں یہ فلم دیکھنے کے حق میں نہیں تھے مگر ہم ضد کر کے بیٹھ گئے تھے کہ اگر ہمیں آج فلم نہ دکھائی گئی تو ہم اگلے ہفتے دہلی نہیں آئیں گے۔ آخر انہوں نے ہماری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ مگر سوال یہ تھا کہ ہمیں تنہا فلم دیکھنے کے لئے نہیں بھیجا جا سکتا تھا۔ ایک پرانے گھریلو ملازم قاسم بابا کے نام قرعہ فال نکلا۔
اب ذرا قاسم بابا کے بارے میں سنئے۔ ان کی عمر ستر پچھتر سال کے قریب ہو گی۔ فلموں سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ البتہ تھیٹر کے ڈراموں کے رسیا تھے اور ان ہی کی کہانیاں اور مکالمے ہمیں سناتے رہتے تھے کہ میاں کہانی تو ’’اندر سبھا‘‘ کی تھی‘ آج کل کیا خاک کہانیاں بنتی ہیں۔
قاسم بابا افیمی تھے۔ یوں تو سارے دن ہی افیم کی پینک میں رہتے تھے مگر شام ہوتے ہی کافی مقدار میں افیم کھا کر بالکل انٹا غفیل ہو جاتے اور ہوں ہاں کے سوا کوئی بات نہ کرتے۔ اس عالم میں اگر وہ چلتے پھرتے بھی تھے تو اس طرح جیسے خواب کے عالم میں بعض لوگ چلتے ہیں۔ انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کہاں جارہے ہیں۔ کیوں جارہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ صبح ہونے کے بعد بھی انہیں کچھ یاد نہیں رہتا تھا کہ رات کو انہوں نے کیا کیا تھا کہاں گئے تھے؟
ہمیں ان قاسم بابا کے حوالے کر دیا گیا۔ سنیما گھر سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر بھی نہیں تھا اور سیدھی اور بڑی سڑک وہاں تک جاتی تھی۔ ہماری بہن لال کنواں بازار میں کٹرہ دینہ بیگ کی گلی میں رہتی تھیں۔ اس گلی کے آغاز میں ہمدرد دواخانہ تھا۔ اس کے بالمقابل فتح پوری کا محلہ تھا۔ اس کی ایک گلی کا نام گلی قاسم جان تھا جہاں اردو کے مایہ ناز شاعر غالب کی رہائش تھی۔ اپنی نو عمری میں ہم ان تاریخی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے رہے ہیں۔ اسی گلی کے سامنے سے گزر کر اندر ہی اندر دہلی کے مشہور ترین بازار چاندی چوک میں چلے جاتے تھے۔(جاری ہے)

اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

 (علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)