اگر نکاح میں لڑکی یا لڑکے کے بارے غلط معلومات دی جائیں توکیا نکاح ہوجاتا ہے ؟ ایسا حساس مسئلہ جو سب کی آنکھیں کھول کر رکھ دے گا
لاہور(نظام الدولہ )شادی کی تقریبات پر عین نکاح کے وقت بہت سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں ، کئی بار تو خون خرابہ بھی ہوجاتاہے،بندے مارے جاتے اور باراتیں واپس چلی جاتی ہیں ،اس فساد کے پیچھے لڑکی اورلڑکے کے متعلق کئی جھوٹ کارفرماہوتے ہیں ۔بعض اوقات نکاح ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں جب حجلہ عروسی میں لڑکی لڑکا دوبدو ہوتے ہیں تو ا س موقع پربھی ایسا کوئی جھوٹ سامنے آجاتا ہے جس کے بارے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کے گھر والوں نے بولا ہوتا ہے ۔اور سہاگ رات سے فساد شروع ہوجاتا ہے۔شادی سے پہلے غلط معلومات کی بنیاد پر شادیاں کرانے کا رواج اس قدر زیادہ ہوتا جارہا ہے جو کئی ابہام پیدا کررہا ہے اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب لڑکے لڑکی سے اصل حقائق چھپا کر غلط معلومات کے ساتھ نکاح پڑھوادیا جائے تو کیا یہ نکاح ہوجاتا ہے ۔اس بارے میں ادارہ منہاج القرآن کے مفتی محمد شبیر قادری سے آن لائن فتوٰی پر سوال کیا گیا کہ اگر رشتہ کرتے وقت اور نکاح کے وقت لڑکی جان بوجھ کر اپنی اصل عمر غلط بتائے اور نکاح نامہ میں بھی اس کا غلط اندراج کروائے، جبکہ شناختی کارڈ پر درج عمر حقیقی ہو اور نکاح نامہ پر درج عمر سے مختلف ہو تو اس سلسلے میں کیا شرعی حکم ہوگا۔ جھوٹ کی بنیاد پر کئے گئے اس نکاح کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟ اس پرمفتی محمد شبیر قادری نے کہا ہے کہ دو عاقل و بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں عاقل و بالغ لڑکے اور لڑکی کی باہمی رضامندی سے بعوض حق مہر ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ اگر نکاح میں لڑکے اور لڑکی کے کسی شدید جسمانی عذر کو چھپایا گیا ہو یا لڑکی‘ لڑکا دیکھائے گئے ہوں اور نکاح کسی دوسرے سے کیا گیا ہو تو ایسے نکاح کو نکاحِ فضولی کہتے ہیں۔ یہ نکاح تب تک منعقد نہیں ہوتا جب تک دھوکہ کھانے والا فریق اس نکاح کو قبول نہیں کرلیتا۔ لیکن جس لڑکے اور لڑکی کو دکھا کر شادی طے کی گئی تھی ان کے نام، تعلیم، عمر یا کاروبار کے بارے میں غلط معلومات دینے سے نکاح کے انعقاد پر فرق نہیں پڑتا۔ ایسی غلط بیانی اگرچہ مقدس رشتے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے‘ تاہم اس سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔