بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی برآمدات

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی برآمدات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت سیٹھ عبدالرزاق داؤد نے مہنگائی میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شک نہیں مہنگائی بڑھ گئی ہے، برآمدات توقع کے مطابق نہیں بڑھیں،جبکہ مارچ میں برآمدات کم ہوئی ہیں، تاہم آئندہ دو سے تین سال میں اضافہ متوقع ہے، برآمدات بڑھانے کے لئے ہمیں مزید محنت کرنا ہو گی۔اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کے محرکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ روپے کی قدر کم ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور افراطِ زر بھی بڑھ گیا ہے، وہ ٹیکسٹائل ایکسپو کے افتتاح کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
غنیمت ہے کہ تجارت کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر نے اتنا تو تسلیم کیا کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ورنہ اس حکومت کے اندر توایسے ایسے بزر جمہر بیٹھے ہیں جو یہ ماننے کے لئے بھی تیار نہیں کہ مہنگائی نے90 فیصد عوام کا بُرا حال کر دیا ہے اور اُن کی قوتِ خرید اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ وہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو برسر روزگار ہیں ورنہ تو حالیہ مہینوں میں لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں،جن کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں اور اُن کے پاس کوئی متبادل روزگار بھی نہیں بچا، جو لوگ ابھی تک برسر روزگار ہیں اُن کی تنخواہیں بھی آجروں نے کم کر دی ہیں اور یہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہو رہا ہے،جو لوگ لاکھوں میں تنخواہیں لے رہے تھے اُن کی تنخواہیں بعض صورتوں میں50فیصد یا اس سے بھی کم ہو گئی ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو سالہا سال کی محنت کے بعد تنخواہ کی اس سطح پر پہنچے تھے اب اُنہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ یا تو تنخواہوں میں کمی قبول کریں یا پھر ملازمت سے فارغ ہو جائیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا معیارِ زندگی یک دم گر گیا ہے وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ یا تو خوراک کی کم از کم ضرورت پوری کر سکتے ہیں یا پھر سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے،لیکن حکومتیں اِس سلسلے میں بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتی رہیں،موجودہ حکومت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور نتیجے کے طور پر لوگوں کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرانا پڑتا ہے، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی روزگار کی تلاش کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کم تر درجے کی ملازمتیں قبول کرنا پڑتی ہیں اور اب تو ایسی ملازمتیں بھی دستیاب نہیں ہیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔کِسی جگہ چند معمولی نوکریاں نکلتی ہیں تو ہزاروں لوگ درخواستیں دیتے ہیں جن میں سے ان کو نوکری مل جاتی ہے جو مروجہ چلن کے مطابق چلتے ہیں۔
مشیر تجارت نے تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں کمی کے بعد برآمدات میں اضافے کی جو امیدیں لگائی گئی تھیں وہ بھی پوری نہیں ہوئیں اور جنوری فروری میں برآمدات میں کچھ اضافے کے بعد مارچ میں کم ہو گئی ہیں، اب انہیں امید ہے کہ ان میں اضافہ ہو جائے گا،لیکن اس موقع پر ایک سوال غیر متعلق نہیں ہو گا کہ روپے کی قدر میں کمی برآمدات بڑھانے کے لئے کی گئی تھی اب اگر تھوڑی بہت برآمدات بڑھ بھی جاتی ہیں تو ان سے جو رقم ملے گی وہ اگر اتنی یا معمولی زیادہ ہوتی ہے جو پہلے ہی برآمدات سے حاصل ہو رہی تھی تو ایسے اضافے کا کیا فائدہ؟ بہرحال یہ پتہ اس وقت چلے گا جب اس سود و زیاں کا حساب ہو گا کہ روپے کی قدر کم کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اربوں ڈالر کے قرضے کا بوجھ تو بیٹھے بٹھائے بڑھا لیا، لوگوں کی زندگیاں بھی مہنگائی کے شکنجے میں کس دیں، شیر خوار بچوں کے پمپر سے لے کر دودھ، والوں سمیت زندگی کی ہر بنیادی ضرورت مہنگی ہو گئی، لیکن نہیں بڑھیں تو برآمدات نہ بڑھ سکیں، اِس لئے اگر مشیر تجارت روپے کی قدر میں کمی کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں تو یہ جائزہ ذرا گہرائی میں جا کر لیں وہ خود تو صنعت کار ہیں ان کی صنعتوں کو اگر مہنگی گیس اور بجلی ملے گی تو وہ اپنی اشیا کی قیمتوں میں اس سے زیادہ اضافہ کر کے اپنا منافع بڑھا لیں گے،لیکن اُن عوام کا کیا ہو گا، جن کے پاس ایسی کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں۔ ویسے بھی اُن کی کمپنی کو ڈیم بنانے کا ٹھیکہ بھی مل چکا ہے یہ اِس منصب کا نقد منافع بھی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ گرنا شروع ہو گیا تھا اور سالِ رواں کے بجٹ میں اس کے لئے6.2 فیصد کا جو ٹارگٹ رکھا گیا تھا اس کا نصف کے لگ بھگ حاصل ہوتا نظر آ رہا ہے، جبکہ اگلے مالی سالوں کے لئے تو عالمی اداروں نے ابھی سے پیش گوئی کر دی ہے کہ یہ شرح دو اور تین فیصد کے درمیان ہی رہے گی اور3فیصد کی حد بھی عبور نہ کر سکے گی۔ایسے میں ظاہر ہے ٹیکس بھی کم حاصل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کے نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں 300ارب روپے ریونیو شارٹ فال ہے۔باقی ماندہ تین ماہ میں اگر یہی شرح رہی تو شارٹ فال300 ارب سے بھی بڑھ جائے گا ایسے میں غیر ملکی قرضوں کا سود ادا کرنے پر ہی آدھے سے زیادہ ٹیکس ریونیو خرچ ہو جائے گا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باقی اخراجات کس طرح پورے ہوں گے۔ اس کے لئے مزید قرضے لینے ہوں گے جو اس وقت بھی خطرناک زون میں داخل ہو چکے ہیں۔
اپنی حکومت کے آغاز سے لے کر اب تک تحریک انصاف نے ریکارڈ قرض لیا ہے۔ معاشی شعبے میں حکومت کی کوئی کارکردگی تو سامنے نہیں آئی، بھڑکیں البتہ بہت ماری جارہی ہیں۔ سابق حکمرانوں کو معاشی حالات کا ذمہ دار مسلسل ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اگر ہر بات کے ذمہ دار سابق حکمران ہی تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی بھی کوئی ذمے داری ہے یا نہیں، یا پھر اُن کے ذمے یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ لوگوں کو صبح و شام یہ بتاتے رہیں کہ سابق دور میں اتنی کرپشن ہوئی تھی،حالانکہ اگر ایسا تھا بھی تو یہ کرپشن ختم ہوئے بھی تو آٹھ ماہ ہو چکے، اسے روک کر جو رقم بچائی گئی وہ کہاں ہے؟ اسی طرح باہر سے جو رقم اقتدار سنبھالتے ہی لانی تھی اس کا کیا بنا، منی لانڈرنگ روک کر جو اربوں بچائے گئے وہ کدھر ہیں۔ اس کے مقابلے میں قرضوں کا حجم اتنی تیز رفتاری سے بڑھا ہے کہ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، اب آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیا جا رہا ہے،لیکن اِس سلسلے میں بھی نت نئی داستانیں گھڑی جا رہی ہیں،کبھی یہ کیا جا رہا ہے کہ نرم شرائط پر قرضہ لیا جا رہا ہے، کبھی کہا جا رہا ہے کہ ہم سخت شرائط نہیں مانیں گے، جبکہ بظاہر لگتا ہے ہم سو پیاز اور سو جوتے بیک وقت کھانے کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں، حکومت نے مہنگائی کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو یہ سیلاب بہت کچھ خش و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ زیادہ خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی ضرورت نہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -