صدر ٹرمپ کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے بند معیشت کو کب کھولنا ہے، اُن کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہو گا، خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ یہ درست فیصلہ ہو، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ قبل از وقت پابندی ختم کرنے سے ہم ہزاروں زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور وائرس بھی مزید تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کچھ نہ کرتے تو ہلاکتیں بہت بڑھ سکتی تھیں،ہماری جارحانہ حکمت ِ عملی کے باعث لاتعداد جانیں بچ رہی ہیں،زندگیاں بچانے کے لئے پیش رفت دیکھی گئی ہے۔امریکہ میں ہلاکتیں ایک لاکھ سے کم ہی رہیں گی۔
امریکی صدر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ وہ ایسٹر تک معیشت کھولنے کی کوشش کریں گے لگتا ہے اب وہ اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں وہ اکثر و بیشتر اپنی حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے رہتے ہیں اور جن ریاستوں میں مخالف سیاسی جماعت(ڈیمو کریٹ) کی حکومتیں ہیں اُن کا اپنے مخصوص انداز میں مضحکہ بھی اڑاتے ہیں۔ نیو یارک کا گورنر بھی ڈیمو کریٹ ہے، جو سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ہے اِس وقت امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد اٹلی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے،اس کے باوجود اگر صدر ٹرمپ ”اپنی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ“ بند معیشت کھولنے کی صورت میں کرنے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے اُن کے پاس اپنے اس مجوزہ فیصلے کے حق میں دلائل اور معلومات بھی ہوں گی۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جس کے سربراہ صدر ٹرمپ کی نکتہ چینی کا ہدف ہیں اور انہوں نے ڈبلیو ایچ او کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ آج بھی خبردار کیا ہے کہ جلد بازی میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو کورونا تیزی سے پھیلے گا، برطانیہ میں بھی، جس کے وزیراعظم بورس جانسن خود کورونا سے متاثر اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں، سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا مسئلہ یہی ہے کہ لاک ڈاؤن کب ختم ہو گا، روزانہ کی بنیاد پر دی جانے والی بریفنگ میں برطانوی حکومت یہی اپیل کر رہی ہے کہ لاک ڈاؤن کی سختی سے پابندی کی جائے۔ برطانیہ میں ہلاکتیں دس ہزار سے بڑھ گئی ہیں اور حکومت کا خیال ہے کہ ابھی دو ہفتے تک ان میں اضافہ ہو گا اور انتہا تک پہنچنے کے بعد ہی ان میں کمی آنا شروع ہو گی۔بھارت نے21 دن کے کرفیو نما لاک ڈاؤن کے بعد مزید دو ہفتوں تک اسے جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے معاملے پر حکومتی حلقوں کی رائے تقسیم ہے تاہم جن شہروں میں کورونا کیسز نہیں وہاں لاک ڈاؤن ختم کرنے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ البتہ جہاں وبا کی شدت ہے وہاں بہت سے علاقے سیل بھی کر دیئے گئے ہیں۔پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ اگلے دو تین ہفتے خطرناک ہیں انہوں نے ان اقدامات کا ذکر بھی کیا جو حکومت وائرس کو پھیلنے سے روکنے اور مریضوں کے علاج معالجے کے لئے کر رہی ہے، بند معیشتیں کھولنے کا مسئلہ پوری دُنیا کو درپیش ہے اور ہر ملک میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ لاک ڈاؤن کے متاثرین کی امداد کیسے کی جائے،تاہم یہ خیال حاوی ہے کہ اگر معیشت کی خاطر لاک ڈاؤن نرم یا ختم کیا گیا تو وائرس پھیل بھی سکتا ہے۔ برطانیہ کو تو یہ خدشہ بھی ہے کہ وائرس کے ”اگلے حملے“ کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے ان ممالک کی مدد کرنی چاہئے جن کے پاس وسائل کی قلت ہے، ان اطلاعات کے بعد کہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کی امداد بند کر دے گا، برطانیہ نے امدادی رقم بڑھانے کا اعلان کیا ہے، مشکل کی اس گھڑی میں بھی برطانیہ اپنی عالمی ذمے داریوں کو نظر انداز نہیں کر رہا۔پاکستان میں 14اپریل (کل) کو ابھی یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کون کون سی صنعتیں کھولی جائیں، تعمیرات کی صنعت کے لئے مراعات کے اعلان کے ساتھ ہی اسے کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ توقع یہ تھی کہ تعمیرات کے آغاز کے ساتھ ہی وہ صنعتیں بھی چلنا شروع ہوں گی، جن کا تعمیرات کی صنعت سے تعلق ہے تاہم کورونا کا خوف ہر چیز پر حاوی ہے البتہ چھوٹے تاجروں نے ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ وہ 15اپریل سے دکانیں کھول دیں گے، کیونکہ بند کاروبار کی وجہ سے وہ مشکلات سے دوچار ہو گئے ہیں، دیکھیں عملاً اس کی نوبت کب آتی ہے۔
امریکہ دُنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے بڑی معیشت ہے،لیکن کورونا نے نہ صرف اس کی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا ہے،بلکہ معاشرتی تارو پود بھی بکھیر کر رکھ دیا۔نیو یارک کے ہسپتالوں میں لاشوں کے انبار دیکھنے والے ہسپتالوں کے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے، مصیبت کے اِن لمحات میں غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ دُنیا میں لاکھوں ہلاکتوں کے ذمے دار ممالک اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں کہ انہوں نے کب کب اور کہاں کہاں انسانیت کا قتل ِ عام کیا۔ جنگوں کی تاریخ پر ایک نظرِ واپسیں ڈال کر ان ممالک کو اب انسانیت کی بقا کا ”نیا ورلڈ آڈر“ تیار کرنا چاہئے، تباہی و بربادی بہت ہو چکی، کورونا وائرس کی ہلاکتوں نے نہ صرف عالمی جنگوں کی ہلاکتوں کی یاد دِلا دی ہے،بلکہ خوشحال امریکہ کے متمول طبقات کو بھی محتاجوں کے درجے پر پہنچا دیا ہے اور وہ بھی راشن کے لئے قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں، بڑی بڑی امریکی کمپنیاں جن کے بجٹ کئی ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہیں بند ہو رہی ہیں،ائر لائن انڈسٹری جو ملکوں کی معیشت میں بڑا حصہ ڈالتی تھی، طیارے گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے، دُنیا کا سب سے بڑا طیارہ ساز ادارہ بوئنگ نئے جہازوں کی تیاری بند کر چکا ہے۔ جنرل موٹرز کو صدر ٹرمپ حکم دے چکے ہیں کہ وہ کاروں کی تیاری چھوڑ کر وینٹی لیٹر بنائے۔ یہ صرف ایک دو یا چند اداروں کا حال نہیں ہے، کھربوں ڈالر کمانے اور خرچ کرنے والی کمپنیاں اپنے ملازموں کو فارغ کر رہی ہیں۔
اِن سب امور کو پیش ِ نظر رکھ کر ہی معیشت کو کھولنے کا فیصلہ کیا جائے گا، صدر ٹرمپ کے لئے ایک دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نومبر کے انتخابات میں دوبارہ صدر بھی منتخب ہونا چاہتے ہیں اس کے لئے انہوں نے کئی بڑے بڑے اقدمات کئے تھے، اپنے سب سے بڑے مخالفین طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کڑوی گولی بھی نگلی تھی، تحفظات کے باوجود ان سے معاہدہ کیا تھا تاکہ امریکی فوج کو افغانستان سے نکال کر ہم وطنوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ انہوں نے اٹھارہ سال سے افغان کوہساروں سے ٹکرا کر اپنا سر لہولہان کرنے والے امریکہ کی فوج کو واپس بُلا لیا ہے اور ان کا خیال تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے وہ اگلا صدارتی الیکشن جیت کر دوبارہ صدر بن جائیں گے،لیکن کورونا نے اُن کے راستے میں بڑی بڑی مشکلات کھڑی کر دیں ایسے میں وہ بند معیشت کھولنے کا ارادہ اسی امید پر کر رہے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تو ان کے لئے الیکشن جیتنا مشکل ہو گا، دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟