کھلاڑی یا "کھنڈ دے کھڈونے"
بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ اس بحث کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ جہانگیر ترین اور وزیراعظم عمران خان میں اب بھی کوئی خوشگوار تعلق باقی رہا ہے یا نہیں۔۔۔ مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ یاری "ٹٹ" چکی ہے۔۔۔ اور وہ بھی "تڑک" کرکے نہیں۔۔۔ بلکہ "ٹھاہ" کرکے۔ چینی آٹا سکینڈل کے بعد دونوں میں جو دوریاں پیدا ہوئیں ان کا اظہار خود جہانگیر ترین ٹی وی چینلز پر آکر ببانگ دہل کرچکے ہیں۔ اب تو اس سے اگلے مرحلے کا انتظار ہے کہ اس اسکینڈل کی 25 اپریل کو آنے والی حتمی رپورٹ مزید کس کس کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ وزیراعظم خان نے چینی اسکینڈل پر جو دلیرانہ پالیسی اختیار کی ہے وہ تقاضا کرے گی کہ اب بات محض جہانگیر ترین تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ جو بھی اس کی زد میں آتا ہے اس کے خلاف بلا حیل و حجت کارروائی کی جائے کیونکہ اب یہ واحد کارڈ رہ گیا ہے جسے کھیل کر وزیراعظم کی سیاسی ریٹنگ بحال ہوسکتی ہے۔
اب جو بات اس سارے کھیل میں اہمیت اختیار کررہی ہے وہ یہ ہے کہ سبسڈی کی صوبائی کابینہ سے منظوری کے پیچھے کون کون سے ہاتھ کارفرما تھے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ صوبے میں کپتان کا سپر پلیئر بھی چینی کی بہتی گنگا میں نہا کر کھلاڑی کی بجائے " کھنڈ دا کھڈونا " ثابت ہوا، کیا انکوائری کمیٹی اس کا بھی پتہ چلائے گی۔
اس سلسلہ میں جو کہانی سننے میں آئی وہ بہت دلچسپ ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق ہوا کچھ ہوں کہ تین صوبائی وزراء چینی پر سبسڈی کے سخت خلاف تھے، وہ کابینہ اجلاس میں شریک نہیں ہورہے تھے۔ ان کے تیور دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ آفس کی طرف سے انہیں یہ یقین دلا کر سی ایم سیکرٹریٹ بلایا گیا کہ اجلاس میں چینی سبسڈی کا ایجنڈا موخر کردیا گیا ہے۔ اس یقین دہانی پر جب وہ اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے اجلاس سے کچھ وقت پہلے " کاروبار مملکت و چینی" سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیت کی انہیں الگ الگ فون کالز موصول ہوئیں اور انہیں کہا گیا کہ چینی سبسڈی کے معاملے پر ان کی سپورٹ انتہائی ضروری ہے۔ ان وزراء نے کہا کہ آج تو ایجنڈے میں سبسڈی کا معاملہ شامل ہی نہیں تو انہیں بڑے پراعتماد انداز سے بتایا کہ اسے دوبارہ ایجنڈے میں شامل کروا دیا گیا۔ بس آپ کی حمایت درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق ان وزراء کو بلیک میلنگ کے انداز میں یہ بھی باور کرایا گیا کہ اگر " آپ نے سبسڈی کی منظوری نہ دی، چینی ایکسپورٹ نہ ہوئی۔۔۔ تو آپ کے حلقے کے کسان گنے کی ادائیگی سے محروم رہیں گے اور اس طرح بالواسطہ طور پر آپ کا ہی نقصان ہوگا۔" اس سارے معاملے میں وزیراعلیٰ اور وزیرخوراک سمیت کئی اور وزراء بھی براہ راست رابطے میں تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اہم شخصیت کی طرف سے مذکورہ وزراء سمیت چند دیگر ارکان کابینہ کو حمایت کے لئے وٹس ایپ پیغامات بھی کئے گئے جو اب بھی ان کے پاس محفوظ ہیں اور اگرفورانزک آڈٹ کرنے والی ٹیم وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء اور شوگرملز مالکان کے فونز کا ریکارڈ بھی حاصل کرلے تو یہ بات تو بڑی آسانی سے معلوم ہوجائے گی کہ چینی سبسڈی کے دھندے میں صوبائی حکام کا کتنا کردار تھا۔
چینی سکینڈل کی ابتدائی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور مخدوم خسرو بختیار کو سب سے بڑے بینی فشری قرار دیا گیا ہے لیکن بتایا جارہا ہے کہ وزیراعظم خان کا ہدف اب تک صرف جہانگیر ترین ہی ہیں کیونکہ مخدوم خسروبختیار اور ان کے بھائی صوبائی وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت نے وزیراعظم کو اپنی بے گناہی پر قائل کرلیا ہے۔ حالانکہ چینی کی پیداوار کے لحاظ سے سبسڈی میں ان کا حصہ جثے سے زیادہ ہے۔ یعنی انہیں ملنے والی رقم کا تناسب ان کے پیداواری سائز سے بڑا ہے۔ اب تک دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ مرکز میں جہانگیرترین جبکہ صوبے میں وزیرخوراک سمیع اللہ چوہدری (جن سے وزیراعظم پہلے ہی ناخوش تھے اور ایک بار پہلے بھی ان سے استعفا لینے کی کوشش کی گئی تھی) کی قربانی دے کر، بظاہر مرکز میں خسروبختیار اور صوبے میں وزیراعلیٰ کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن درحقیقت اب ساری نظریں کپتان عمران خان پر ہیں، عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے اپنی باری لے چکے، انہوں نے جو ہاتھ کرنا تھا اپنے تئیں کرلیا، لیکن ناکام رہے۔ وزیراعظم نے کھنڈ کے کھلاڑیوں پر تو ہاتھ ڈال دیا لیکن اگر انہوں نے اس گندے دھندے میں شریک اپنے کسی " کھڈونے " کو بچانے کی کوشش کی تو جہانگیرترین کا موقف تقویت پکڑے گا کہ یہ چینی کی سبسڈی کا ایشو نہیں بلکہ سیاسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ اور اگر کپتان نے احتساب کا ڈنڈہ بلا تمیز اور بلادریغ چلایا، مصلحت سے کام نہ لیا تو اس سے ان کا "صاف چلی شفاف چلی" کا بیانیہ سرخرو ہوگا۔