”بھٹو“ مرے قلب کا منقلب ہونے کا لمحہ تھے!
ممتاز کالم نگار، دانشور، نظریاتی صحافی اور بلند پایہ ادیب مولوی سعید اظہر گزشتہ دنوں اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کی وفات سے پاکستان میں نظریاتی صحافت کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔ زیر نظر انٹرویو مرحوم نے قومی ڈائجسٹ کو گزشتہ سال دیا تھا جو مارچ 2019ء کی اشاعت میں شائع ہوا اور اُن کی وفات کے بعد یادگار حیثیت اختیار کرگیا۔ ایک سال بعد اس انٹرویو کے بعض اقتباسات بارِ دیگر شامل اشاعت کئے جارہے ہیں۔ (ادارہ)
س: آپ کو صحافت کے پروفیشن میں مولوی کہا جاتا ہے، کیوں؟
ج: مجھے جہاں تک یاد آتا ہے مجھے مولوی کا لقب حسین نقی نے دیا تھا۔ یہ 1968ء یا 1969ء کی بات ہوگی۔ تب پاکستان ایک تھا، دو لخت نہیں ہوا تھا۔ ناقابل بیان غموں میں سے وہ غم ابھی ”پاکستانی عثمانیوں“ پر نہیں ٹوٹا تھا۔تب پاکستان میں صحافی برادری نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں قومی صحافتی ہڑتال کی تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب مجھے مولوی کا لقب ملا تھا۔ میں حسین نقی، آئی اے رحمن اور عبداللہ ملک جیسے ترقی پسندوں کے کیمپ میں چلا گیا تھا اور لاہور میں صحافتی رسائل و جرائد اور شخصیت کی سطح پر ضیاء الاسلام انصاری اور مجیب الرحمن شامی دائیں طرف تھے، میں بائیں طرف کھڑے ہونے کے باوجود شامی صاحب سے تعلق خاطر رکھتا تھا۔
س: جس مولوی سعید اظہر کو آج زمانہ جانتا ہے، وہ شخصیت بچپن میں کس طرح پنپ رہی تھی؟
ج: قدرت کے قانون کے سانچے میں جیسے کروڑوں انسان ڈھلتے ہیں، میں بھی ڈھل رہا تھا، اس سانچے میں کچھ ایسے لمحے تھے کہ غالباً آٹھویں یا نوویں جماعت تک میں نے برصغیر کے عظیم علمی ادارے ندوۃ ا لمصنفین، پورا دیوبند، ترقی پسندوں کا لٹریچر، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، اقبالؒ اور دیگر مشاہیر کو پڑھ لیا تھا۔ میٹرک سے پہلے پہلے میں ان وادیوں میں گھوم چکا تھا۔میرا رجحان جماعت اسلامی کی طرف تھا، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں ایف اے کے لئے داخل ہوا (میں انڈر ایف اے بھی ہوں) سند تو ظاہر ہے میٹرک کی ہی ہو گی۔ جماعت کے ساتھ مکمل وابستگی کے تسلسل ہی میں 4 اپریل 1979ء کی وہ رات آئی جس رات ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار کو سرفراز کیا۔ میں ان کے لئے لٹکایا گیا کا لفظ کبھی استعمال نہیں کرتا ہوں۔ وہ میرے قلب کے منقلب ہونے کا لمحہ تھا۔ اس میں وہ ظلم صریح تھا جو انصاف کے پراسس کے مختلف مراحل میں ابتدائی مرحلے سے شروع ہو ا اور اختتام تک گیا۔
س: آپ کا نظریہ کیا ہے؟
ج: جو ایک سادہ عام مسلمان کا نظریہ ہوتا ہے وہی میرا ہے کہ اللہ ایک ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، زکوٰۃ، حج اور پورے پانچ ارکان کا دائرہ ہے۔میری زندگی کا سفر اس دائرے کے اندر ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے، باقی زندگی اسی کے اندر ہے۔
س: بھٹو کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج: پیغمبرؐ کی حدیث ہے کہ فاقہ انسان کو کفر کے نزدیک کردیتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا مطلب ہے، ایک جوڑا، ایک مکان اور رہائش، یہ ایک علامت تھی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے انسانوں کی بنیادی ضرورت کے حوالے سے پیش کیا جس کو کم نگاہوں نے شرپسندی کے لئے استعمال کیا۔
س: تاہم آپ ایک لگے بندھے رستے پر چلنے کے قائل نہیں رہے۔
ج: یہ بحران میرا نہیں ہے، یہ بحران حامد ولید کا اور اس جنریشن کا ہے جس سے ان کا تعلق ہے۔ میں لگے بندھے راستے پر نہیں چلا، میں تو ایک دائرے میں تھا اور جو چیز جینوئن لگی اس کو قبول کرلیا۔ اس میں کئی ترقی پسند جو پورنو گرافی لکھتے ہیں میں ان سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن میں دائیں بازو کی طرح یا مذہب پرستوں کی طرح ترقی پسندوں کو زندگی سے خارج نہیں کرتا۔ انہیں زندگی کا حصہ سمجھتا ہوں۔
س: اگر آپ کے بچپن میں اس اپروچ کے سوتے ڈھونڈے جائیں تو کیا استاد شادی خان کی تعلیم اس کا سبب تھی؟
ج: یہ محض ایک اظہاریہ نہیں ہے۔ میرا ایمان ہے کہ قدرت کے ان دیکھے قوانین جو انسان پر نازل ہوتے ہیں اور اس کی تربیت کرتے ہیں یہ ان کا طفیل ہے۔ میرا کوئی ایسا استاد نہیں جس نے میرے سامنے ترقی پسند کا لفظ ادا کیا ہو۔ کوئی ایسا استاد نہیں ہے جس نے مجھے مولانا مودودی کا بتایا ہو۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ سبب مجسم ہوا اور سامنے آن کھڑا ہوا، پھر مجھے پتہ چلا کہ یہ سبب اس کے لئے ہے۔
س: گویا کہ یہ آپ کو اسلامیہ کالج کی دین ہے؟
ج: جی ہاں! اور یہ وہی دور ہے جب وہ مشہور ترین واقعہ ہوا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے اور ان کا پنجاب یونیورسٹی میں خطاب تھا۔ تب تاشقند معاہدے کی بازگشت تھی اور وہ پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کرنے آئے تھے تو ان کو خطاب نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ میں اس ہال میں موجود تھا اور میرے آگے احمد رضا قصوری سرخ ٹوپی پہنے موجود تھے جنھوں نے جمعیت کی طرف سے انتہائی ہنگامہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے شدید مزاحمت کرتے ہوئے غالباً بارک اللہ خان کو وہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ تم بھی اپنا کوٹ اتارو، میں بھی اتارتا ہوں اور Let us have a duel in the ground میں اس وقت موجود تھا، میں عینی شاہد بھی ہوں اور شرکاء میں بھی تھا کیونکہ ہم تو نعرے بازی کر رہے تھے۔ تاہم جب واقعات سے وقت کی گرد اٹھتی ہے تو میں تاریخ کو کسی اور نقطہء نظر سے دیکھتا ہوں۔ یہ نظریے کی تبدیلی نہیں ہے، یہ ذہنی بلوغت کا شاخسانہ ہے۔
س: اب دوبارہ آپ کو کھینچ کر آٹھویں یا نوویں میں لے کر جاؤں گا جب آپ کتابیں پڑھا کرتے تھے، یہ سب کیسے ممکن ہوا تھا؟
ج: میں کتابیں تو لاہور میں آکر خرید کر پڑھتا تھا البتہ منڈی بہاؤالدین میں کتابیں لائبریریوں سے مل جایا کرتی تھیں، ترجمان القرآن مل جایا کرتا تھا۔ میرا جماعت سے تعلق آٹھویں جماعت سے ہو گیا تھا۔مولوی غلام رسول لہیڑویؒ ہوتے تھے جن کے پاس ترجمان آتا تھا۔ ترجمان کے اداریے کو اشارات کہتے ہیں، اس میں سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور بین الاقوامی مسائل پر بحث کی ہوتی تھی۔ میں حیران ہوتا تھا کہ یہ کیسے مولوی ہیں جنھیں مغرب کا بھی پتہ ہے، یورپ کا پتہ ہے چنانچہ مجھے دلچسپی پیدا ہوئی اور میں ترجمان القرآن کا تقریباً حافظ بن گیا تھا۔ بڑی دیر پڑھتا تھا، آج بھی ترجمان میری جان ہے، آج بھی میرے پاس ترجمان کی فائل پڑی ہے۔
س: جب آپ اسلامیہ کالج میں تھے تو اس وقت کن ناموں کی شہرت تھی؟
ج: اس وقت بڑے ناموں میں نصراللہ شیخ، عثمان غنی، بارک اللہ خان، پروفیسر خورشیداحمد، منور حسن اور دیگر بڑے نام تھے۔ نعیم صدیقی کے اپنے ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کی دوران گفتگو ڈکشن منفرد ہوتی تھی جسے سننے کے لئے ہم ان کے پاس جاتے تھے۔ لاہور کے برکت علی محمڈن ہال میں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پر متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں نعیم صدیقی نے جو تقریر کی اس کا شیخ مجیب سے کوئی جواب نہ بن پڑا تھا۔ اسلامیہ کالج اور لاہور میں ہی میں نے ڈاکٹر نذیر، ڈاکٹر اجمل، علامہ علاؤ الدین صدیقی، پروفیسر علم الدین سالک کو دیکھا تھاجہاں کرنل (ریٹائرڈ) محمد اسلم جیسے مقتدر پرنسپل تھے۔ اس کے علاوہ پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر سید عبداللہ اور سجاد باقر رضوی بھی دیکھے۔ ان شخصیات کو دیکھ کر دل کہتا تھاکہ اگر آوارہ گرد بھی ہونا ہے تو اچھا آوارہ گرد ہونا ہے۔ اسی زمانے میں اظہر جاوید، عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد ایسے لوگ بھی ابھر رہے تھے۔ اس وقت سارے اساتذہ انگریزی بولتے تھے، ہمیں جواب بھی انگریزی میں دینا پڑتا تھا۔ ایف اے کرنے کے دوران ہی میں نے پہلا مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ’طالبعلموں کی دنیا‘ تھا جو مولانا کوثر نیازی کے شاہ عالم مارکیٹ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’شہاب‘ میں شائع ہوا تھا۔ مولانا کوثر نیازی کمال کے خطیب تھے۔ وہ قلم کے بھی شاہسوار تھے اور خطابت کے بھی شاہسوار تھے۔ انکے قلم میں بھی علم ہوتا تھا اور خطابت میں بھی علم ہوتا تھا۔ اصل میں علم، تسلسل، لہجے کا توازن اور الفاظ پر گرفت، یہ چاروں چیزیں ان کی تقریر اور تحریر میں موجود تھیں۔ انکی تحریر پڑھ لیں یا تقریر پڑھ لیں، ان کی ذات کی وادیوں میں مت جھانکیں۔ وہ خوبصورت تھے، ان پر ”فرشتے“ کے سائے تو تب پڑے جب انہوں نے جماعت اسلامی سے استعفا دیا۔ آج باسٹھ برس بعد ہمیں ان کا استعفا کسی سازش کا حصہ نہیں لگتا، یا یوں کہیں کہ میں اس ردعمل کا شکار نہیں ہوا تھا جس کا اس وقت کچھ لوگ ہو گئے تھے۔ اسی زمانے میں اسلامیہ کالج کے میگزین کریسنٹ میں بھی میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ جب میں منڈی بہاؤالدین میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا تو میں نے ایک مضمون بعنوان ’نوجوانان ملت کے نام ایک پیغام‘ لکھا تھا۔ جب میں لاہور آیا تو ’غبار خاطر‘ سے ایسا متاثر ہوا کہ اپنے ایک دوست کو رات بارہ بجے خط لکھنا شروع کردیا۔ صبح پانچ بجے تک پچیس صفحات پر مشتمل خط لکھا اور حوالہء ڈاک کر دیا۔ حامد مجید صاحب مولانا کوثرنیازی کو اسسٹ کرتے تھے۔ مجھے مولانا کوثر نیازی سے پہلی ملاقات یاد ہے۔ میں ان سے ملا اور اپنا مضمون دیا۔ انہوں نے دیکھا اور کہا ٹھیک ہے اور اسسٹنٹ سے کہا کہ میگزین کے آخر میں جو تعلیم کا صفحہ ہوتا ہے اس میں گنجائش ہوتو شائع کردیں۔ اس کے بعد میں نے ہر ہفتے ’شہاب‘ کا شمارہ دیکھنا شروع کردیالیکن گنجائش نہیں نکل رہی تھی۔ تاہم چار پانچ ہفتے بعد میری تحریر شائع ہو گئی۔ میں اس وقت لاہور میں خالہ کے گھر رہتا تھا۔ میں نے ایک شمارہ خریدا اور گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنے مضمون والا صفحہ کھول کر میز پر رکھ دیا لیکن شام تک کسی نے وہ مضمون نہ دیکھا۔
س: ایف اے میں ناکامی کے بعد آپ منڈی بہاؤالدین چلے گئے ہوں گے؟
ج: یہی وہ دورانیہ ہے جو ایک یا دو سال پر مشتمل تھا جس کے دوران میں نے گھر سے ترکِ قیام کرلیا اور غالباً سب سے پہلے گجرات جماعت اسلامی کے دفتر میں آیا۔ وہاں جماعت کے ایک کارکن شریف صاحب تھے سائیکل پر جماعت کا لٹریچر اور نقطہء نظر پھیلانے کے لئے دیہاتوں میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔ ایسا ہی جذبہ باقی لوگوں کا تھا۔ پھر پتہ نہیں کیا وجہ بنی کہ جلال پور جٹاں میں جماعت کی شاخ کے ایک حکیم صاحب مجھے اپنے ہمراہ لے گئے۔ میں ان کے گھر کھانا کھاتا تھا اور پھر وہاں سے سرگودھا مولانا گلزار احمد مظاہری کے پاس چلا گیا۔ وہاں سید اسعد گیلانی تھے، جو جماعت کے مشہور راہنما تھے اور سیٹلائٹ ٹاؤن سے سڑک جامعہ القاسم العلوم کو جاتی تھی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن سے ہزار گز پر جماعت کا دفتر تھا، گیلانی صاحب مشہور مصنف تھے اور امیر بھی رہے۔ ان کے بیٹے فاروق حسن گیلانی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں میرے بچپن کے دوست تھے اور ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
س: آپ نے داڑھی کب رکھی تھی؟
ج: میں نے ایف اے میں عقیدے کے ساتھ داڑھی رکھی تھی اور عقیدے کے ساتھ ہی رکھی ہے، فیشن کے طور پر نہیں رکھی تھی۔ اصل میں یہ جماعت کی داڑھی کا سائز ہے جو میری داڑھی کا سائز ہے البتہ سید صاحب مٹھی کے برابر داڑھی رکھتے تھے۔ ان کا مشہور جملہ ہے کہ اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں ہے۔ بہت بحث چھڑی تھی اور مولانا کے خلاف چلنے والی مہم میں داڑھی کے سائز کا بھی اعتراض تھا۔ ماہنامہ تجلی کے مدیر مولانا عامر عثمانی جو دیوبند سے فارغ التحصیل تھے، مجتہد اور عالم باعمل تھے، انہوں نے ہندوستان میں سید مودودی کی وکالت کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ مولانا عامر کا مزاحیہ کالم ”مسجد سے مے خانے تک“ بھی شائع ہوتا تھا جس سے آنکھ ہی نہیں دماغ بھی کھل جاتا تھا۔ مساموں تک میں تخلیقی حسیات بیدار ہو جاتی تھیں۔
س: تب نوائے وقت کون چلا رہے تھے؟
ج: حمید نظامی تو وفات پا چکے تھے اور ان سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ البتہ مجید نظامی سے میری متعدد ملاقاتیں ہیں۔ مجید صاحب ایک ہی طرح کے رہے اور ان کی بھرپور شخصیت تھی، وہ سنجیدہ اور بارعب تھے اور متوازن شخصیت کے مالک تھے، میں البتہ ان کے ساتھ ہنسی مذاق کر لیتا تھا۔ جب میں نے نوائے وقت جوائن کیا تو میری تنخواہ تین سو تیئس روپے تھی۔ وہاں شاہ دین بلڈنگ میں فضل کنٹین والا ہوتا تھا جہاں سے ہر کوئی کھانا کھاتا تھا۔ میں مجید صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ کنٹین والے سے کچھ کہیں میرے پاس تو بل کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا جنرل منیجر رانا نور پرویز سے کہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا بارعب جنرل منیجر نہیں دیکھا۔ جب وہ نوائے وقت سے چلے گئے تو وہ رانا نور پرویز نہ رہے، بس پرویز ہی ہو گئے اور وہ مولوی مدن والی بات نہ رہی۔ خیر میں جب اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں پیسے لینے جاتا تو ادھر ادھر دیکھ کر جاتا تھا اور مطمئن ہوتا تھا کہ کنٹین والا فضل میرے اردگرد نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے زیادہ بل میرے بنتے تھے، تنخواہ تین سو تھی تو بل چھ سو کے بنتے تھے کیونکہ میں دنیا بھر کی ”یار باشی“ میں مبتلا تھا۔ چائے پر چائے چلتی تھی، ہارون اور حسن کی بھی یہی عادت ہے، بیٹھے ہوں تو کہتے ہیں جو مرضی لے آؤ۔ میں نے تنخواہ لی اور ادھر ادھر دیکھا تو پیچھے سے آواز آئی کہ ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو، تمھارے پیچھے کھڑا ہوں، لاؤ ادھر پیسے پکڑاؤ۔ میں نے دائیں ہاتھ سے تنخواہ لی اورا س نے بائیں ہاتھ سے چھین لی اور میں کہتا کہ یار پچاس روپے تو دے دو، کرایہ تک میرے پاس نہیں ہے تو وہ کہتا کہ اچھا اتنے تو دے دیتا ہوں کہ گھر پہنچ سکو، کل سے پھر کنٹین پر شروع ہو جانا۔ تب بارہ آنے کی فلم کی ٹکٹ ہوا کرتی تھی، دال مفت ہوتی تھی اور روٹی ایک آنے کی تھی۔ اگر توا قیمہ کھانا ہے تو وہ چار آنے کا ہوتا تھا۔ آٹھ آنے کی کیپسٹن کی سگریٹ کی ڈبی مل جاتی تھی۔ سوتا میں جہاں نما کے دفتر میں تھااور باقی آوارہ گردی تھی۔ بشیر احمد ارشد نوائے وقت کے اداریہ نویس تھے۔ اس میں م ش کی ڈائری شائع ہوا کرتی تھی۔ میری ان کے ساتھ بے پناہ بے تکلفی تھی۔ تیز طرار تھے، ان کا اپنا ایک اسلوب تھا۔ ”میں“ سے شروع ہوتی تھی۔ ایبٹ روڈ پر ان کا پریس تھا۔ ممتاز احمد خان کے پارٹنر تھے۔ م ش کی دو شادیاں تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ یورپی صحافت کے انداز میں ڈائری لکھتے تھے، بڑی زبردست ڈائر ی ہوتی تھی جس میں پس پردہ اطلاعات ہوتی تھیں۔ اس پر ان کا پرمغز انداز ہوتا تھا جس سے آپ بور نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پریس کے ساتھ ہی ہفت روزہ چٹان تھا۔ وہاں سے شورش کاشمیر ی شام یا دوپہر کو گھر کی طرف آتے دکھائی دیتے تھے۔ میں اس وقت اخبار نویس بن چکا تھا، آمریت اور انڈیا کی دھمکیاں اور پاکستان کے حالات کی تشویشناکی ہر وقت ہمارے ذہنوں پر سوار رہتی تھی لیکن میں ان کو دیکھ کر کہا کرتا تھا کہ جب تک ایسے لوگ معاشرے میں ہیں تب تک پاکستان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان کی نعتوں میں کمال کا لہجہ، اٹھان، ابھار، شان، جذبہ اور ایک ہی مقدار دکھائی دیتی تھی۔ یہ عجیب و غریب بات ہے، ایسے تھے شورش کاشمیری …… اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ایسے لوگ زندگی میں کچھ نہ بھی کرتے تو ان کی سربلندی کے لئے ان کی نعت ہی کافی ہے۔ یہی حال حسن نثار کا ہے جس کی باکمال نعت ہی اس کے لئے کافی ہے۔ تب نوائے وقت میں سکون آمیز رونق ہوا کرتی تھی۔ جب مجید نظامی نوائے وقت سے علیحدہ ہوئے تو بیگم حمید نظامی نے بیٹھنا شروع کردیا تھا اور ان کے ساتھ شعیب نظامی بیٹھتے تھے۔ میری زیادہ ملاقاتیں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں ہی سے رہتی تھیں!
س: ماہنامہ دھنک کا تذکرہ ابھی تک نہیں ہوا؟
ج: میں دھنک کی بنیادی ٹیم کا ممبر نہیں ہوں۔ اس میں حسن نثار تھے، فوزیہ رفیق، ندیم سلیمی، پرویز حمید، ظفر اقبال، جاوید اقبال کارٹونسٹ وغیرہ سارے وہیں ہوتے تھے۔ یہ غالباً 70ء کی دہائی میں نکلا تھا اور پاکستان ہی نہیں انڈیا کا بھی واحد سوسائٹی میگزین تھا جس کی قیمت سب سے زیادہ تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ میں 2000ء کے لگ بھگ برطانیہ گیا تھا۔ ہمراز احسن آج وہیں ہیں جو ”مساوات“ میں کام کرتے تھے اور ان صحافیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے ضیاء الحق کے جبر کے نتیجے میں ملک چھوڑا تھا۔ میں ان سمیت دیگر دوستوں سے وکٹوریہ اسٹیشن ملا کرتا تھا جسے میں لندن کا لکشمی چوک کہا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ پتہ لگا کہ بڑے پیمانے پر ایک اخبار نکل رہا ہے، چنانچہ مجھ سے کہا گیا کہ میں بھی اپلائی کر دوں۔ اس کا چیف ایگزیکٹو ایک سکھ تھا جس کا نام منجیت سنگھ تھا۔ اس نے میرا سی وی دیکھا تو کہنے لگا ”کہ اوئے ہوئے بڑی مشقت کیتی اے“۔ کیونکہ میرے سی وی میں دنیا بھر کے رسائل و جرائد تھے جن میں پاکستان ٹائمز، نوائے وقت، جنگ، کوہستان، جاوداں، جمہور، دنیا بھر کے مشہور ترین ویکلی بشمول بادبان، ہفت روزہ زندگی، بادبان، چٹان، ماہنامے بشمول دھنک، گجرات کا پندرہ روزہ وغیرہ وغیرہ…… خیر مجھے نوکری مل گئی اور میں نے کام کرنا شروع کردیا۔ میں جلنگھم سے وکٹوریہ پہنچتا، وہاں نونٹین ٹاؤن آفس کے دفتر پہنچتا تھا اور کام کرتا تھا۔ دو چار دن وہاں بیٹھے تو نیچے کسی بھاری مشین کے چلنے کی آوازیں آتی تھیں۔ پوچھا کہ نیچے کیا ہے تو کسی نے بتایا کہ نیچے الاہرام اخبار شائع ہوتا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ مصر والے محمد حسین ہیکل والا الاہرام تو جواب تھا کہ بالکل وہی ہے۔ میری تو دنیا میں تھرتھری، لرزش، کپکپاہٹ کے عدم تواز ن پر مبنی شورش آمیز کیفیت پیدا ہوگئی کہ میں نے بچپن سے اسے آئیڈیلائز کیا ہوا تھا۔ میں بھاگا ہو ا نیچے گیا، پریس چل رہا تھا، اس اخبار کو دیکھا …… میں نے الاہرام کو شائع ہوتے دیکھا۔ میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ میں نے الاہرام کو شائع ہوتے دیکھا، تم نے نہیں دیکھا۔وہاں چار، پانچ، چھے ہفتے گزر گئے تو میرے ساتھیوں شاہد اور ہمراز احسن نے منجیت سنگھ کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بین الاقوامی پولیس کو مطلوب تھا اور اس پر چار پانچ مقدمات تھے۔ وہ میرے سات سو پاؤنڈ ادا کئے بغیر غائب ہو گیا تھا۔
س: آپ نے مادر ملت کو آنکھوں سے دیکھا، ان کا کیا احوال ہے؟
ج: میں نے مادر ملت کو گجرات کے جلسہ عام میں دیکھا تھا۔ وہاں حبیب جالب کی نظمیں سنی تھیں۔ سید مودودی کا مشہور جملہ تھا کہ ایوب خان میں کوئی خوبی نہیں سوائے اس کے وہ ایک مرد ہے اور مادر ملت میں کوئی خامی نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک عورت ہے۔ یہ جملہ میں نے موچی گیٹ کے جلسے میں خود سنا تھا۔ مشہور پامسٹ ایم اے ملک نے سید صاحب کا ہاتھ دیکھا اور لکھا کہ ان کے ہاتھ میں دماغ کی شہ شاخہ لکیریں تھیں، برصغیر میں کوئی اور ایسا ذہن نہیں تھا۔ میں نے اعتزاز احسن کے والد احسن علیگ کو بھی سنا ہوا ہے۔
س: آپ کی آوارہ گردیوں کا کیا عالم تھا؟
ج: ڈیوٹی دیتے دیتے بیچ میں سے بھاگ جاتا تھا، پریس کلب میں سینکڑوں راتیں گزاردینی، سارا دن مال روڈ کے فٹ پاتھوں پر گزار دینا، پبلک لائبریری میں جا کر پڑھتے رہنا، بے روزگاری کے زمانے میں پنسل کان پر لگا کر لکشمی چوک میں مختلف دفتروں میں جا کر مضمون لکھنے اور منجی پیڑی ٹھوکنے کے مترادف جو کام مل گیا کرلیتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ نیلو پر لکھ دو، کوئی کہتا تھا کہ فلاں جلسہ ہوا ہے اس پر لکھ دو۔ کوئی کہتا کہ صحافت کے حقوق کی جدوجہد پر لکھ دو وغیرہ وغیرہ۔جب خرچے بڑھ جاتے تو شامی صاحب کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ کوئی مضمون لکھنے کے لئے کبھی سرقہ بازی نہیں کی۔
س: جب نوائے وقت میں کام کرتے تھے تو کہاں رہتے تھے؟
ج: میں کبھی کہیں رہتا تھا، کبھی کہیں رہتا تھا۔ شاہ ابوالمعالیؒ روڈ پر جمیل گیسٹ ہاؤس ہوتا تھا جہاں میں، ہارون رشید، عباس اطہر وغیرہ سب اس میں رہتے تھے۔ اب تو وہ ہاسٹل بند ہوگیا ہے، وہاں بے شمار لوگ رہتے تھے۔ میں نے وہاں ایک کمرہ لیا ہوا تھا۔ تب کپڑے اور جوتے کا کچھ خیال نہ ہوتا تھا، جو شے خراب ہوگئی نئی لے لیتے تھے۔ جب گیسٹ ہاؤس میں کرایہ نہیں دے پاتا تو کمرے سے نہیں نکلتا تھا۔ اس پر مالک نے اپنے کمرے میں ہی میرا بستر لگوالیا اور میں وہیں سوتا، وہیں گزر بسر کرتا تھا۔ہماری زندگی سویوں کا گچھا رہی ہے۔
س: جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت آپ کیا کر رہے تھے؟
ج: جب ضیاء الحق تشریف لائے تو میں اس وقت نیلا گنبد سے پندرہ روزہ ’گیت‘ نکالتا تھا۔ وہ ڈیڑھ دو سال تک نکلتا رہا، یہی ”گیت“ تھا جب میں نے مظفر محمد علی اور حسن نثار نے مل کر نکالا تو اسی ’گیت‘کو ’زنجیر‘ میں بدل لیا تھا۔ اس وقت کے انفرمیشن سیکرٹری ڈاکٹر صفدر محمود تھے۔ انہوں نے نام کی تبدیلی کے لیے ہماری درخواست قبول کر لی تھی۔ میں اس وقت مجیب شامی کے ہفت روزہ بادبان میں تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میں دائیں بازو کے ہفت روزوں کی اشاعت ”مطلوب حسن“ کے مقام کی حامل تھی اور ہر کوئی بادبان، افریشیا یا چٹان کا قاری تھا۔ ان کی اشاعت ہزاروں میں پہنچ گئی تھی۔ 1977ء کی تحریک کے بعد بھٹو صاحب فارغ کئے گئے تو میں ”گیت“ نکالتا تھا۔ میں نے اس میں ایک اداریہ لکھا کہ آپ کہتے تھے کہ آپ تاریخ کا ادراک رکھتے ہیں لیکن آپ تاریخ کو پہچان نہیں سکے۔ دھرتی ماں ہوتی ہے اور آپ نے ماں کے سینے پر پاؤں رکھ کر اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یہ تھی میرے عقائد اور نظریات کی ذہنی پوزیشن اور حتیٰ کہ میں قومی اتحاد کے ایک جلوس میں بھی شامل ہوا اورنعرے بھی لگا رہا تھا جو میری زندگی کی انتہائی نان پروفیشنل حرکت تھی۔ میں ایک جرنلسٹ تھا، میرا کیا کام کہ نعرے لگاؤں لیکن چونکہ نظریاتی شدت تھی اس لئے ایسا کربیٹھا۔ تب چودھری خادم حسین، جو میرا یار غار ہے، اس وقت امروز میں رپورٹنگ کرتا تھا اور اس کی رپورٹنگ ٹیم میں سے کسی نے یہ بھی لکھ دیا کہ مولوی سعید اظہر بھی نعرے لگارہا تھا۔ جب بھٹو کی حکومت گئی تب یہ کیفیت تھی اور جاری رہی تاآنکہ 4 اپریل 1979ء کی رات آتی ہے اور میرے اندر ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ میرا ذہن مذہبی ماحول، پابندی، دایاں بازو اور ان کے رویوں کے خلاف چلنا شروع ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کو شراب یا قادیانیت کے زمرے میں دیکھنا کم نگاہی کے مترادف ہوگا، یہ روایتی مذہبی استحصال ہے جس کے آگے بولنا اس ملک میں ناممکن ہے وگرنہ اس تحریک کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ تو پھانسی کے بعد عرصہ لگا، میں نام نہیں لیتامگر وہ پانچ سات دس اخبار نویس جنھوں نے اس قیامت صغریٰ کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے، ان میں سے سب سے زیادہ جن کے قلب میں صداقت کی گنجائش موجود تھی وہ آج تک اس دور میں جو زیادتی ہوئی عملی طور پر اس کا ازالہ دے رہے ہیں۔ ان کا اخبار ذوالفقار علی بھٹو کے ایڈیشن پورے طمطراق سے شائع کر رہا ہے اور ان کا نام احترا م سے لیتا ہے اوروہ ذاتی زندگی میں اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ باقی بارہ تیرہ کا بھی یہی حال ہے، اب وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نفرت اس طرح نہیں پھانکتے ہیں سوائے ایک ہارون الرشید کے، وہ وہیں پہ ہے جہاں پہ تھا۔ اسے نظریاتی استحکام کہہ لیں یا کوئی کیفیت کہہ لیں، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، یا کچھ کہنا نہیں چاہتا ہوں چونکہ وہ مجھے بہت عزیز ہے۔
س: 4 اپریل 1979ء سے دو چار روز پہلے آپ کہا ں تھے؟
ج: میں اور قربان انجم ’بادبان‘ کے دفتر سے نکل رہے تھے تو قربان نے کہ آج رات پھانسی دے رہے ہیں۔ تم یقین کرلو کہ پھانسی لگ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ پھانسی سے تین چار د ن پہلے جو چار جرنیلوں کی میٹنگ ہوئی تھی اور جس کی تصویر اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس میں ضیاء بھی تھا، اقبال بھی تھا، سوار خان اور ایک آدھ اور بھی تھا۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا تھا۔ ضیاء الحق کی جو شخصیت تھی میں ان کے تحمل، بردباری اور عبادت گزاری کے انداز سے ہی 6 جولائی 1977ء کو ہی ان کو سمجھ گیا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ پیپلز پارٹی والے نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کا ”بردبار“ ہے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ دو تین دن بعد پھانسی ہوگئی۔ اس رات کو میں نسبت روڈ پر لیبر لیڈر آفتاب ربانی کے ایک ٹھکانے پر موجود تھا۔ میں رات کو وہیں سو گیا۔ صبح صبح نسبت روڈ، گوالمنڈی اور ارد گرد کی فضائیں ہاکر کے نعروں سے گونج رہی تھیں کہ پھانسی لگادی گئی، تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔ وہ چیخ پکار کر رہے تھے اور پرندے تک خاموش اور اداس تھے۔ دایاں بازو آج اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس صبح پرندے بھی اداس اور خاموش تھے۔
س: 80ء کی دہائی میں کیا کچھ کیا؟
ج: وہ میرا فری لانسنگ کا دور ہے اور 1986ء میں ہم ’زنجیر‘ نکالتے ہیں، انعام الرحیم، حفیظ خان ہمارے ساتھ تھے۔ حسن نثار چیف ایڈیٹر، میں ایڈیٹر اور مظفر سپیشل ایڈیٹر تھا۔ ان دنوں حسن نے ایک قسط وار ناول بھی اس میں شروع کیا تھا۔ کاش! وہ مکمل کر لیتا۔ اس کے دو تین ابواب ہیں جن کو پڑھ کر عجیب و غریب سنسناہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ حسن کے معاملات بھی کیفیات سے عبارت ہیں۔ بی بی نے ساہیوال کے ایک جلسے میں زنجیر کا بھی حوالہ دیا تھا، حسن نے تمام اخبارات سے خبروں کے تراشے لے کر ایک صفحہ بنایا تھا۔ حسن بہت Cute ایڈیٹر ہے، میں نے accurateکا لفظ استعما ل نہیں کیا، مظفر محمد علی balancedاور visionary ایڈیٹر تھا۔ اس سے پہلے بڑا کچھ ہوتا ہے اور بعد میں بھی۔
س: کیا ذوالفقار علی بھٹو سے کبھی آپ کی ملاقات ہوئی تھی؟
ج: ذوالفقار علی بھٹو سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا انٹرویو عظیم الرحمن فرقان اور رفعت بی بی نے کیا تھا، میں دفتر میں ان کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ میں اس وقت ڈپٹی ایڈیٹر تھااور مینجمنٹ میرے ذمہ تھی۔ میں نے پارلیمنٹ میں ضرور دیکھا تھا، ان کی تقریریں سنی تھیں، جب مساوات نکلا تو انہوں نے داتا دربارؒ کے سامنے پائلٹ ہوٹل کی گیلری میں کھڑے ہو کر عوام سے خطاب کیا تھا۔ میری ضیاء الحق سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ میری ملاقاتیں عجیب و غریب ہیں، وہ صحافتی پروسیجر کا حصہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر نواب اکبر بگتی، ولی خان، نبی بخش زہری، غوث بخش بزنجو، شیر باز مزاری وغیرہ سے میری بڑی ملاقاتیں ہیں۔ اصغر خان کے اخبار ’آزاد‘ کا میں ایڈیٹر رہا تھا اور ان سے بے شمار ملاقاتیں تھیں۔
س: بلوچ سیاستدانوں سے آپ کی خاص رغبت کیوں تھی؟
ج: بلوچستان میرا دوسرا گھر تھا۔ جس طرح منڈی بہاؤالدین، لاہور اور اسلام آباد میرے تین شہر ہیں۔ جب آصف وردگ تحریک استقلال میں تھے تو میں ان کے ساتھ بلوچستان کے دورے کیا کرتا تھا۔ پھر ایک مرتبہ انہوں نے مجھے اکیلے ہی وہاں بھیج دیا۔ اس وقت کے بلوچ معاشرے کا رومانس بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ strawbry معاشرہ تھا، اس کے اردگرد آم تھے، عادات میں سیب تھے مگر معاشرہ سٹرابری تھا۔ وہاں میں ڈاکٹر عبدالمالک کے ہاں ٹھہرتا تھا، پھر تحریک استقلال کے خدائے نور ہوتے تھے، غالباً کوئی ہوٹل ہوتا تھا جہاں میں ٹھہرتا تھا اور پھر ڈاکٹر عبدالمالک کی چھت ہوتی تھی، وہاں جا کر سوجاتا تھا۔ دن کو ان کے مطب میں چلا جاتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یارا میں ساری دنیا پھرا ہوں، خدا جانتا ہوں پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں ہے۔ ا س کے پیچھے کوئی حب الوطنی کا روایتی تصور نہیں تھا۔
س: آ پ کی کبھی مادام نورجہاں سے بھی ملاقات ہوئی ہوگی؟
ج: میری مادام نورجہاں سے اکثر سٹوڈیو میں ملاقات ہو جاتی تھی، مادام کا تکیہ کلام ہوتا تھا وے کیہ حال ہے؟ انتہائی دبنگ خاتون تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے اعزاز میں ایک فنکشن ہوا، صحت یاب ہوئی تھیں جس میں بڑے بڑے فنڈز کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد نہ کبھی خواجہ پرویز دکھائی دیئے، نہ کبھی وہ فنڈز اکٹھے ہوئے، تب مجھے پتہ چلا کہ ایسے بھی فنڈز ہوتے ہیں۔ مجھے چیزوں کا زیادہ اس لئے پتہ نہیں چلتا کہ میں دوسرے کی طرف کسی دزدیدہ نگاہی سے دیکھ ہی نہیں رہا ہوتا۔ میرے ساتھ اکثر ہوتا ہے کہ چند ماہ بعد پتہ چلتا ہے کہ کیا ہوا ہے؟
س: احمد ندیم قاسمی سے ملاقات ہوئی؟
ج: میں نے ان کے انٹرویو کے لئے 101 سوال تیار کئے تھے۔ قاسمی صاحب کی تو کیا بات ہے۔ مثال کے طور پر جب میں حنیف رامے سے ملتا تھا تو کہتا تھا کہ آپ جب مسکراتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مونا لیزا مسکرا رہی ہے۔ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تو محتاط رہتے تھے کہ مجھ سے کہیں مجمع میں ملاقات نہ ہو جائے۔ میں قاسمی صاحب سے کہا کرتا تھا کہ یہ بتادیں کہ آپ کس حد تک حسین و جمیل ہیں۔ آپ صرف ان کے پاس بیٹھ جائیں اور واپس آ رہے ہوں گے تو تہذیب اور علم کے درمیان میں ادبی رجحان آپ کے اندر پرورش پا رہا ہوتا تھا۔ قاسمی صاحب سے میرا ون ٹو ون رابطہ بھی کافی رہا اور ذہنی رابطہ کبھی ختم نہیں ہوا ہے، اب بھی نہیں ختم ہوا ہے۔
س: دایاں بازوآپ سے کتنا ناراض رہا؟
ج: یہ ہوا لیکن بہت کم کیونکہ ذاتی تعلق تھے۔ اس حوالے سے ضیاء الحق کے موضوع پر میری اور شامی صاحب کی خط کتابت ہے جو ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئی، اس پر بڑا ردعمل ہوتا رہا۔ وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، نہ میں ویسے خط لکھ سکتا ہوں نہ وہ ویسے جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے نواز شریف کی مخالفت بے پناہ کی، ان کا ووٹر آج بھی نہیں ہوں لیکن اب میں نے اس ملک کے بحران کو سمجھ لیاہے کہ اس بحران کی ایک مثلث کی گردن کچھ لوگوں نے اپنے مضبوط تر ہاتھوں سے مروڑ رکھی ہے اور وہ مثلث ہے ”آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل……“ میں نے سیاستدانوں، بشمول نواز شریف، کی ذاتی مخالفت چھوڑ دی جو پیپلز پارٹی کی طرف جھکاؤ ہونے کی وجہ سے تھی۔ پھر میں نے سیاستدانوں کو اس لحاظ سے دیکھنا شروع کیا کہ اس حوالے سے انہوں نے آلودہ یا غیر آلودہ جو بھی جدوجہد کی اور اس ملک میں جو تھوڑا بہت آئین اور ووٹ کا تسلسل قائم ہے وہ صرف اور صرف پاکستان کے تمام سیاستدانوں، کرپٹ اور غیر کرپٹ، کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ میں نے یہ اصطلاح پی ٹی وی میں استعمال کی تو نواز شریف نے بھی ”ووٹ کی حرمت، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل“ کا بیانیہ اختیار کیا۔ میں نہیں کہتا لیکن مجھے یاد ہے کہ 2017-18ء میں مَیں نے یہ بیانیہ شروع کیا تھا اور اس وقت پورے ملک کا بیانیہ ہے۔
س: آپ کی شادی کب ہوئی تھی؟
ج: میری شادی 1984ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت روزنامہ جنگ میرا مستقل پڑاؤ تھا، کبھی آ گیا کبھی واپس چلا گیا۔ میں وہاں مرکزی فیچر رائٹر تھا۔ وہ 1982ء میں نکلا تھا۔ شادی میں یہ بھی ایک عنصر تھا کہ منڈا جنگ اخبار وچ کم کردا اے، باقی تو مجھے دیکھنے کے بعد پتہ چلا ہوگا کہ میں کیسا ہوں۔ میرے والد کی جو زمین میرے حصے میں آئی وہ پندرہ لاکھ میں بیچی، عین اسی وقت جب میں بینک میں رقم رکھوا رہا تھا ادھر اسلامیہ پارک میں میری بیگم کی ایک سہیلی نے کہا کہ میں مکان بیچنا چاہتی ہوں اور یوں اللہ نے مجھے چھت دے دی۔ میری آوارگی کا پہلو میری بیگم کے سامنے عیاں ہے تاہم بچوں کے سامنے بالکل نہیں ہے۔ شادی کے بعد میری زندگی میں ترتیب آگئی البتہ آوارہ گردی نہیں چھوڑی، باہر سونے کا چکر ختم ہوگیا اگرچہ ہفت روزہ سکرین والے حجرے میں شادی کے بعد بھی چھ سات سال تک سوتا رہا، وہ ہماری ایک دنیا ہے، اس میں تنویر کاظمی ہے، وحید ڈار ہے، خالد بٹ ہے، غفور بٹ ہے، خواجہ پرویز ہے، تجمل حسین ہے، اے حمید ہے، یونس ادیب ہے اور بھی بہت سارے ہیں۔ غفور بٹ صاحب کے گھر سے آنے والا کھانا کھا کر پتہ چلتا ہے کہ کشمیری گھرانے سے کھانا آیا ہے، ان کی اور ملک احد کے گھر سے آنے والے کھانوں کی لذت اور انفرادیت کہیں نہیں دیکھی۔ آگے رائل پارک میں یوسف خان کا دفتر تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ رات دس بجے مونچھ اتار دیتے ہیں اور شوٹنگ ختم کر دیتے ہیں، اس کے بعد رائل پارک آ جاتے تھے، اسی طرح مصطفی ٹنڈ بھی وہیں آجاتا تھا۔ اب تو ہمارا انمول اثاثہ غفور بٹ کے صاحبزادے معین بٹ کی شکل میں ہماری واحد متاع ہے۔
س: پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو زندگی ایسے ہی گزرنی چاہئے تھی یا کسی اور طرح سے؟
ج: میرا دوست خالد چودھری ہے، اس کی والدہ کی وفات پر اس کے ہاں گیا، ہم علیحدہ کھڑے تھے، میں نے کہا بس ایسے ہی گزر گئی، اس نے کہا کہ کیا بات کر رہے ہو، No regrets، ہم جیسی بھرپور اور آزاد زندگی کس نے گزاری ہے، کوئی شرمندگی نہیں ہے، میرا یہی جواب ہے۔ میرے اندر شرمندگی یہ ہے کہ شخصیت کا دینی پہلو جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام نہ ہو سکنا مجھے دامن گیر رہا ہے اور آج تک موجود ہے۔
X……v……X