چین نے کورونا وائرس کے خلاف تحقیق کو کس طرح روکا؟ ایسا انکشاف منظر عام پر کہ پوری دنیا چینی حکومت کے کردار پر دنگ رہ گئی

چین نے کورونا وائرس کے خلاف تحقیق کو کس طرح روکا؟ ایسا انکشاف منظر عام پر کہ ...
چین نے کورونا وائرس کے خلاف تحقیق کو کس طرح روکا؟ ایسا انکشاف منظر عام پر کہ پوری دنیا چینی حکومت کے کردار پر دنگ رہ گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک طرف امریکہ اور چین ایک دوسرے پر کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار کرکے پھیلانے کے الزامات لگا چکے ہیں اور دوسری طرف چین پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے دنیا کو کورونا وائرس کے متعلق درست معلومات نہیں دیں اور اس وباءکے خلاف تحقیق کو روک دیا جس کی وجہ سے اس کا پھیلاﺅ نہیں روکا جا سکا۔ اب اس حوالے سے ایک نیا تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آ گیا ہے۔ میل آن لائن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں یہ وائرس پھیلنے کے محض 3دن بعد چین کی معروف خاتون سائنسدان شی ژینگ لی نے اس کا مکمل جینیاتی تجزیہ کرکے بتا دیا تھا کہ یہ کورونا وائرس کی ایک قسم ہے جو 2002ءمیں چین ہی سے پھیلنے والے ’سارس‘ سے بہت مشابہہ ہے۔ شی ژینگ لی، جو چین کی سرکردہ ویرالوجسٹ ہیں اور سالہا سال سے کوروناوائرسز پر تحقیقات کرتی آ رہی ہیں، انہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ وائرس ووہان سے ایک ہزار کلومیٹر دور چین کے جنوبی علاقے ین نان (Yunnan)میں پائی جانے والی ’ہارس شو چمگادڑوں‘ میں پایا جاتا ہے۔
میل آن لائن کے مطابق ژینگ لی کو کورونا وائرس کی جینیاتی تفصیلات بتانے کے بعد مبینہ طور پر چینی حکومت نے خاموش کرا دیا تھا۔ ان کے ادارے ووہان انسٹیٹیوٹ آف ویرالوجی کے ڈائریکٹر ین ژی وینگ نے اپنے تمام سٹاف کو ایک ای میل کی جس میں انہوں نے سب کو کورونا وائرس کے متعلق معلومات راز رکھنے کا حکم دیا اور کہا کہ وہ اس مرض کے متعلق کسی کو معلومات نہ دیں۔ووہان کے مقامی صحافی ’گاﺅ ژو‘ نے 76دن کا لاک ڈاﺅن ختم ہونے کے بعد بتایا کہ انہوں نے اس لاک ڈاﺅن کے دوران گھر میں قید رہتے ہوئے ژینگ لی سے رابطہ کیا تھااور انہوں نے بتایاتھا کہ وہ اور ان کا ادارہ 2جنوری کو کورونا وائرس کی مکمل جین سیکوئنسنگ کر چکے تھے لیکن انہیں چپ کرا دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ووہان کے جن 7ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے متعلق انٹرویو دیئے تھے یا سوشل میڈیا پر لوگوں کو متنبہ کیا تھا اور اس مرض کی تفصیل بتائی تھی انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ژینگ لی اور ان کی ٹیم کے جین سیکوئنسنگ مکمل کر لینے کے 8دن بعد شنگھائی کے ایک پروفیسر نے ایک مریض سے وائرس کے نمونے لے کر اس کی جین سیکوئنسنگ کی اور پہلی بار اس کی تفصیل ایک اوپن پلیٹ فارم پر شائع کر دی۔ اس پر اس پروفیسر کی لیبارٹری بند کر دی گئی تھی۔اس کے ایک ہفتے بعد تک چینی انتظامیہ کی طرف سے کہا جاتا رہا کہ ووہان میں کورونا کے نئے کیس سامنے نہیں آ رہے اور یہ بھی بتایا گیا کہ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی دن عالمی ادارہ صحت نے بھی یہی بات اپنی ایک رپورٹ میں بتائی جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئی۔