کیاایماندارپولیس افسران بھی تبدیل کر دئیے جائیں گے ؟
کسی بھی ملک، ریاست یا شہر میں امن و امان کی مثالی صورتحال ترقی وخوشحالی، آئین وقانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی صرف اسی صورت ممکن ہے جب ریاستی اداروں کو حاصل اختیارات کے تحت انہیں آزادانہ حیثیت میں کام کرنے کا پورا اختیار دیا جائے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے بلی چوہے کے کھیل نے ریاستی اداروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بیوروکریٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ عملی طو رپر مفلوج ہو کر رہ گئے‘ ممبران اسمبلی کو راضی کرنے کیلئے ان کے اضلاع میں انتظامیہ اور پولیس سمیت مختلف محکموں کے سربراہان کی تعیناتیاں کسی صورت بھی اچھی گڈ گورننس قائم نہیں کر سکتیں، مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کے جانے اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے بیوروکریسی میں تبادلوں کے حوالے سے ایک بار پھر ہلچل مچی ہو ئی ہے جب سے میاں شہباز شریف نے حلف اٹھایا ہے،پنجاب بھر میں اہم عہدوں پر تعینات افسران کے تبادلوں کی خبریں گردش کررہی ہیں اور یہ امکان ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور متوقع وزیر اعلی پنجاب حمزہ ہ شہباز اپنی پسند کے افسران کی تبدیلیاں عمل میں لائیں گے لاہور پولیس کے سربراہ سمیت بہت سے افسران کا تبادلہ تو یقینی بتایا جاتا ہے تاہم چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل نہ کرنے کے حوالے سے پنجاب کی متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی،ویسے بھی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس نے کو ئی ایسا اقدام نہیں کیا جو متحدہ اپوزیشن کے لیے مسائل کا باعث بنا ہو، اگر یہ دونوں افسران تحریک انصاف کی ہدایات کے مطابق کام کرتے تو یقیناً پنجاب میں متحدہ اپوزیشن کو اقتدار کی منزل آسانی سے نہ مل پاتی، اس لیے سینئرافسران کا خیال ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل نہیں کیا جائے گاتاہم مسلم لیگ ن میں ایک لابی ایسی بھی سرگرم ہے جو انہیں تحریک انصاف کے منظور نزرافسران قرار دیتی ہے اور وہ انہیں تبدیل کروانے کے لیے میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز پر دباؤ بھی ڈالیں گے، اگر تبدیل کیا گیا تو انہیں آئی بی کا سربراہ بنایا جانے کا امکان ہے سی سی پی او لاہور فیاض احمد دیو جو کہ انتہائی ایماندار،غیر سیاسی،پیشہ وارانہ امور کے ماہر،دبنگ دلیرانہ قیادت اور کرائم فائٹر پولیس آفیسرز ہیں اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران ریکارڈ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں وزیر اعظم پاکستان نے انہیں فوری طور پر تبدیل کرتے وفاق میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے توجہ طلب بات یہ ہے 2013میں میاں شہباز شریف جب وزیر اعلی پنجاب بنے تو اس وقت فیاض احمد دیو بطور آرپی او ڈی جی خان تعینات تھے میاں شہباز شریف نے آتے ہی اس وقت بھی سب سے پہلا تبادلہ ان کا کیا تھا،ویسے، توایک طرف وزیر اعظم میاں شہباز شریف بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں اور میرٹ پر کام کرنے پر ہمیشہ زور دیتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے وزیر اعلیٰ بیٹے کی پسند نا پسند کا خیال کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور کی طرح دیگر کئی ایماندار افسروں کو بھی فارغ کر دیں گے،قلیل عرصے میں اچھے افسران کی تبدیلی جہاں ایک طرف انتظامیہ میں بد دلی کا باعث بنے گی تو دوسری طرف ان حکمرانوں کے ان دعوؤں کی بھی قلعی کھل جائے گی،جہاں وہ میرٹ پر فیصلوں، اور سیاست کی غیر دخل اندازی کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں یوں تو امن و امان کی صورتحال تمام صوبوں میں مثالی قرار نہیں دی جا سکتی البتہ آنے والی پنجاب حکومت کے صوبائی عہدیداران کو اگر یہ افسران اچھے نہیں لگتے، یا یہ ان کے ناجائز مطالبات نہیں مانتے تو اس کا حل یہ نہیں کہ انہیں ہٹا دیا جائے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں نئی بننے والی حکومت کو اپنی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں افسران کو یکسوئی، دلجمعی اور آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے نہ کہ ہر تھوڑے عرصے بعد تبدیلی کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہے پورے ملک میں عموماً اور پنجاب میں خصوصاً علاقے کی سیاسی برتری تھانے کے گرد گھومتی ہے سیاسی لیڈروں کی فرعونیت اور برتری تھانے میں ان کی شنوائی سے منسلک ہوتی ہے،بے گناہ کو پکڑ لو، گنہگار کو چھوڑ دو‘ یہی کام ہوتا ہے ان علاقائی لیڈروں، ایم پی ایز، ایم این ایز کا‘ان کی بات نہ مانو، تو آپ ناقابل برداشت شخصیت بن جاتے ہیں پھر آپ یا تو امن وامان ٹھیک کر لیں، یا اپنے ایم پی ایز کو راضی کر لیں، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں چیف آفیسر، آئی جی اور سی سی پی اوکے تبادلے کے بعد یہ خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں کہ صوبے میں بڑی تعداد میں افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوگیااب ڈی آئی جیز تبدیل ہونگے، ایس پیز نئے آئینگے‘ تھانیدار بدلے جائینگے‘ ایم پی اے حضرات فخر سے سینہ تان کے کہیں گے کہ ہم نے افسران کو تبدیل کرا دیا‘نئے آنیوالے افسران ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونگے‘ جو حکم سرکارکاتعمیل ہوگی‘ خادم پاکستان کی یہ تبدیلی کسی طور بھی اچھی گورنینس کی نشاندہی نہیں کرے گی ہماری سیاست کب تک تھانے اور جی حضوری کے گرد گھومتی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیوروکریسی کو آزادحیثیت سے کام کرنے کے لیے وسیع اختیارات اور سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے ایک عام آدمی کو زیادہ تر شکایات پولیس سے متعلقہ ہوتی ہیں اگر حکومت اس محکمے کو درست کر لے تو عوام کی نوے فیصد شکایات کاخاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے ضروری یہ ہے کہ صرف ایڈمنسٹریشن ہی محکموں کی کارکردگی کی نگرانی کرے یہ وزیر اعلیٰ کی ڈیوٹی ہے کہ وہ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائیں اور انہیں اپنی ٹیم بنانے کا موقع دیں نہ کہ آئے روز تبادلوں کا طوفان کھڑ اکر کے ان کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے جائیں یہ امر مصدقہ ہے کہ گڈ گورننس کے لیے بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ ڈاکٹر حیدر اشرف پاکستان آرہے ہیں،انہیں ایڈیشنل آئی جی رائے طاہر،ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر عثمان انور،ڈی آئی جی بلال صدیق کمیانہ اور ایدیشنل آئی جی زوالفقار حمید کو پنجاب میں اہم زمہ داریاں سونپے جانے کا امکان ہے