اپوزیشن اتحاد کی کامیابی اور توقعات
آخر کار پی ڈی ایم کا اتحاد عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا ہے اورمیاں شہباز شریف نے پاکستان کے 23ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس سارے ہنگامے میں اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کردار بہت اہم ہے جنہوں نے ساڑھے تین سال تک ہار نہ مانی اور مسلسل عمران خان حکومت کیخلاف ڈٹے رہے، کبھی لانگ مارچ کیا، کبھی جلسے جلوس،کبھی آل پارٹیز کانفرنسز اور کبھی سیاسی اتحاد تشکیل دینے کیلئے دوڑ دھوپ کرتے رہے جس پر ان کا کردار قابل تعریف بھی ہے۔ یہ اپوزیشن کا اتحاد جو حکومت بنانے میں کامیاب ہوا ہے وہ مولانا فضل الرحمن کی اس سیاسی جدوجہد کا ثمر ہے جو وہ ساڑھے تین سال تک عمرانی حکومت کیخلاف کرتے رہے اور انہوں نے نہ تو حکومتی دھونس دھاندلی کی پرواہ کی اور نہ ہی وہ پی ڈی ایم میں پڑنے والی دراڑ سے دل برداشتہ ہوئے بلکہ اپنے موقف اور مقصد کے حصول کیلئے ڈٹے رہے جس کا صلہ انہیں عمران خان حکومت کی رخصتی کی صورت میں ملا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے سیاسی عزم میں کس حد تک مضبوط ہیں بلکہ غیر متزلزل ہیں۔ جے یو آئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، بی این پی مینگل، باپ پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ شہباز شریف وزارت عظمی کے سنگھاسن پر براجمان ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں مفاہمت اور اتفاق کی بات کی ہے جوکہ نہایت خوش آئند ہے کیوں کہ یہ ملک نفرت، عداوت، پارٹی بازی، لاقانونیت بہت برداشت کر چکا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان پاکستان کی ایک بڑی آبادی کے آئیڈیل ہیں لیکن انہوں نے جس طرح پچھلے ساڑھے تین سالوں میں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف بد زبانی کا کلچر پروان چڑھایا تھا اور یہی کلچر ان کے چاہنے والوں میں سرایت کر چکا ہے وہ اپنی پارٹی اور اپنے قائد کے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اب اس کلچر کے خاتمے کی ضرورت ہے اسی لئے میاں شہباز شریف کا مفاہمت کا پیغام ہی وقت کی ضرورت ہے۔ پھر عمران خان نے اپنے اقتدار کے دنوں میں ہر وہ کام کیا جس کی وہ ماضی میں نفی کرتے رہے۔ انہوں نے کہا میں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا اور پھر وزیراعظم بننے کے فوری بعد آئی ایم ایف سے ریلیف پیکج کیلئے مذاکرات کئے۔ انہوں نے کہا میں وزیراعظم ہاؤس اور گورنرز ہاؤس کو گرا دوں گا اور انہیں یونیورسٹیوں میں بدل دوں گا لیکن وہ اپنے اس وعدے کا پاس کرنے میں بھی ناکام رہے۔ عمران خان اپوزیشن کے دنوں میں ہالینڈ کے وزیراعظم کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہ سائیکل پر دفتر جاتے ہیں لیکن عمران خان کے دور اقتدار میں ہماری حسرت رہی عمران خان کو سائیکل پر دفتر جاتا دیکھنے کی لیکن عمران خان بھی پروٹروکول کے رسیا نکلے۔ عمران خان نے کہا میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور احتساب کے نام پر انتقام کا سلسلہ شروع کر دیا اور آج ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود کوئی ایک ایسی مثال نہیں ہے کہ کہا جاسکے کہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں کرپشن کے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ عمران خان نے ایم کیو ایم کو قاتل جماعت کہا اور پھر اسی جماعت کے سہارے اقتدار میں آئے، عمران خان نے پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور پھر اسی پرویز الٰہی کو وزارت اعلی کیلئے نامزد کر دیا۔ پورا پنجاب بلکتا رہا کہ وزیراعلی عثمان بزدار کو بدل کر ان پر رحم کیا جائے لیکن عمران خان کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جب اپنے پاؤں جلنے لگے تو اسی عثمان بزدار کی قربانی دے کر اقتدار بچانے کی کوشش کی۔ عمران خان کی درجنوں ناکامیاں گنوائی جا سکتی ہیں لیکن اب چونکہ وہ سابق وزیراعظم بن چکے ہیں اور اپنے بعد آنے والے وزیراعظم میاں شہباز شریف کیلئے مسائل کا انبار چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں بیس ہزار ارب سے زائد کا قرضہ لیا گیا، ڈالر دو سو کے قریب جا پہنچا ہے، سٹاک مارکیٹ بد ترین مندی کا شکار رہی، پیٹرول کی قیمت ایک سو پچاس کا ہندسہ پار کر گئی اس طرح خوردنی تیل پانچ سو فی لیٹر تک جا پہنچا ہے اور چینی، آٹا کی قیمتیں بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ شہباز شریف نے وزیراعظم بنتے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے اور معیشت کی بحالی کو اپنا سب سے پہلا ہدف قرار دیا ہے۔ شہباز شریف کے پاس اگرچہ اتنا وقت موجود نہیں کیوں کہ الیکشن کمیشن نے بھی اگست تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا اعلان کر دیا ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر 2022 میں الیکشن ہوئے تو اکتوبر یا نومبر میں الیکشن کا میدان سجے گا وگرنہ پھر 2023میں اپنے طے شدہ وقت پر ہی انتخابات ہوں گے۔ اس قلیل مدت میں شہباز شریف کو بہت سے کام کرنے ہیں جس میں سب سے پہلے معیشت کی بحالی ہے۔بطور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی کارکردگی کے سب ہی معترف رہے ہیں اور آج بھی پنجاب میں ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ کر لیں پھر اسے کر کے ہی دم لیتے ہیں اور پنجاب میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے درجنوں ایسے منصوبے آج بھی شہباز شریف کی یاد دلاتے ہیں امید ہے کہ وزارت عظمی میں بھی وہ اپنا یہ معیار برقرا ر رکھتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام ایک منتظم وزیراعظم کے طور پر کروانے کی کوشش ضرور کریں گے۔