عمران خان، ریاستِ مدینہ اور بین الاقوامی سیاسیات (1)
عمران خان کے جانے کا مجھ کو بھی افسوس ہے لیکن اس کی نوبت غم تک نہیں پہنچی۔ چشمِ فلک بارہا اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہوگی۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے تمام ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو اس قسم کی لاتعداد انہونیوں سے واسطہ پڑے گا۔ عمران خان کے رخصت ہونے کا شدید غم بہت سے لوگوں کو ہے لیکن اگر ایک غیر جانبدار قاری کی نظر سے دیکھیں تو ان کی رخصتی تاسف انگیز تو ضرور ہے، غم ناک نہیں کہی جا سکتی۔ اس ڈرامے کے بہت سے پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں کہنہ مشق لکھاریوں کی کمی نہیں اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا میں شعلہ نوا مقررین کی قلت ہے۔ آنے والے ایام میں آپ کو حصہ بقدرِ جثہ ملتا رہے گا۔ جانے والے میں کئی خوبیاں تھیں جو قابلِ صد ستائش تھیں لیکن کئی خامیاں بھی ایسی تھی جو ایک غیر جانبدار قاری کو دعوتِ استغراق دیتی ہیں۔ ان کا ایک ہلکا سا خاکہ بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
میں نے اپنے کالموں میں کئی بار اس بات کا ذکر کیا تھا کہ خان صاحب کو ریاستِ مدینہ کا حوالہ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مدنی دور کا تذکرہ کرنے سے پہلے دو حقائق پر غور کرنا از بس ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ جس ریاستِ مدینہ کا اعادہ عمران خان کو بہت مرغوب تھا، اس کا ایک دور پیغمبرانہ دور تھا۔ پاکستان اُس دور کی تقلید نہیں کر سکتا۔ میں تو یہاں تک جاؤں گا کہ ان مدنی ایام کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایسے تھے کہ ان کو جب ہم دورِ حاضر کا ماڈل بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت کے پل کے نیچے سے تقریباً 1500برس کا پانی بہہ چکا ہے۔ ان چودہ پندرہ صدیوں میں اب اس زمانے میں ریاستِ مدینہ والا امر بالمعروف نہیں رہا اور نہ ہی نہی عن المنکر کے وہ افعال قابلِ عمل ہیں جو دورِ نبویؐ میں تھے۔ ہاں البتہ چنیدہ اصولوں (Cardinal Principles) کا تتبع کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں بھی آج کے تجزیہ نگار سو سو پہلو ایسے نکالیں گے کہ جن سے اجتناب کرنا ہی لازم آئے گا……
اور دوسری تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ جب آنحضورؐ کا وصال ہوا تو ریاست مدینہ کا انتظام کتنے برس تک چل سکا؟…… سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کا عہد دیکھیں۔ بلکہ اس بات پر بھی غور کریں کہ جب آنحضورؐ کی میتِ مبارکہ ہنوز دفن بھی نہیں کی گئی تھی تو مدینہ کے مسلمانوں کی غالب اکثریت یہ نعرے لگانے لگی تھی کہ حضرت محمدؐ مر نہیں سکتے، ان کو موت نہیں آ سکتی، وہ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے…… یہ شور و غل اتنا بڑھا کہ حضرت عمرؓ کو حسبِ معمول شمشیر بکف ہو کر اعلان کرنا پڑا کہ آنحضورؐ ایک بشر تھے اور ان کو جسمانی موت کا سامنا ہوا، وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے البتہ ان پر نازل ہونے والا قرآن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اگر اس میں کسی صحابی کو کوئی شک و شبہ ہے تو سامنے آئے، میری یہ تلوار اس کا فیصلہ کر دے گی!
آپؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلافت کے دو سال جس طرح بسر ہوئے وہ تاریخِ اسلام کا ایک اور سبق آموز باب ہے۔ جھوٹی نبوت کے دعویداروں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی اور یہ فتنہ فرو کرنے کے لئے جتنے کافروں اور مسلمانوں کا خون بہایا گیا اس کی تفصیل میرے اس کالم میں کہاں سمیٹی جا سکتی ہے؟……
حضرت ابوبکرؓ کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا دور دیکھ لیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ 30سالہ دورِ خلافت اس حوالے سے یاد گار اور اہم ہے کہ ان برسوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا۔ اس زمانے میں جہاں اسلامی فتوحات کا دور دورہ ہوا وہاں جنگِ جمل اور جنگِ صفین بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔ ہم مسلمان اس 30سالہ دورِ خلافتِ راشدہ کو ایک مثالی دور مانتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے سوا باقی تینوں خلفائے راشدین کو شہید کیا گیا۔ اور ان میں ایک خلیفہ ء راشدؓ کو تو مسجد میں اور دوسرے کو تلاوتِ قرآن کے دوران قتل کر دیا گیا۔ میں کبھی اسلامی تاریخ کا کوئی بڑا اور جیّد طالب علم نہیں رہا لیکن جب یہ دیکھتا ہوں کہ چار میں سے تین خلفائے راشدین کو بہت بے دردی سے شہید کر دیا گیا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کے بعد سانحہء کربلا کی تفصیل پڑھیے اور خلافت کو ملوکیت میں تبدیل ہوتا دیکھئے۔ مجھے معلوم نہیں خلفائے بنو امیہ، خلفائے عباسیہ، خلفائے فاطمیہ اور خلفائے عثمانیہ کو خلفاء کا دور کیوں کہا جاتا ہے۔ کیا یہ تمام ادوار جدی پشتی اور وراثتی بادشاہت کے ادوار نہیں تھے؟…… میں ریاست مدینہ کا ذکر کرتے کرتے کہاں سے کہاں نکل آیا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر بقولِ عمران خان مسلمانوں نے 800 برس تک اس دور کی بادشاہتوں کو زیرِ نگیں کیا تو کیا یہ خلافتیں، ریاستِ مدینہ کی خلافت کے مماثل تھیں؟…… جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو دس برس تک مسلسل جنگ و جدال میں مصروف رہے۔ بدر، احد، خندق، مکہ،تبوک تو بڑے بڑے حربی معرکے ہیں، ان کے علاوہ شاذ ہی کوئی سہ ماہی ایسی ہوگی (بعداز ہجرت) کہ جس میں حضورؐ نے جنگ (غزوہ یا سرویا) نہیں فرمائی ہوگی…… اس دس سالہ دور کو ریاستِ مدینہ کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس میں جو 95غزوات و سریات لڑے گئے اور جن میں طرفین کے سینکڑوں افراد کام آئے، اس کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں …… چنانچہ میں نے اپنے کالموں میں یہی استدلال کیا تھا کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کی گردان ترک کر دیں۔ وہ ایک انقلابی دور تھا جس پر تبلیغِ دین کی جگہ حرب و ضرب اور کشت و قتال کی پر چھائیاں سایہ فگن تھیں۔ اگر ان کا ذکر کریں گے تو دورِ حاضر میں پاکستان کو بھی مسلسل مصروفِ جنگ رہنا پڑے گا۔ اگر آپ اس جنگ کو ”جدوجہد“ میں کنورٹ کرنا چاہیں تو آپ کی مرضی…… لیکن یہ کنورشن پھر ایک اور باب کھول دے گی! اور اس کی تفصیل بھی بڑی روح فرسا اور حوصلہ شکن ہے۔
پاکستان آج ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس جوہری وار ہیڈز بھی ہیں اور ان کو دشمن پر پھینکنے کے وسائل بھی موجود ہیں …… لیکن کس دشمن پر؟……
ریاستِ مدینہ کی تکرار بالا صرار کے بعد عمران خان کا دوسرا بیانیہ امریکہ کے خلاف تھا۔ عمران کا پاکستان، امریکہ کو عسکری اڈے دینے کو تیار نہ تھا۔”ہرگز نہیں“ کے نعرے سے پہلے بھی سابق وزیراعظم نے افغانستان جنگ میں امریکہ کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ 23فروری 2022ء کو روس کا دورہ کرنے میں امریکہ کی مخالفت کا بہت چرچا کیا گیا، امریکی سفارت کاروں کا خفیہ خفیہ پاکستانی سیاسی زعماؤں سے ملنے کا واویلا، رجیم چینج کی دہائیاں، تحریکِ عدمِ اعتماد کی فنڈنگ وغیرہ لیکن یہ ساری باتیں تو امریکہ، پاکستان اور پاکستان جیسے کئی ملکوں کے خلاف کرتا رہا تھا اور کر رہا ہے۔ کہا گیا کہ پاکستان ایک خود مختار اور آزاد ملک ہے، ایک ساورن ملک کو چند اربوں کے ذریعے نہیں خریدا جا سکتا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ چند اربوں کے ذریعے پاکستانی حکومت خریدی گئی اور یہ کوئی ”انہونی“ نہیں تھی۔ خان صاحب کو اس کا احساس کرنا چاہیے تھا۔ اگر شہباز شریف نے یہ کہا تھا کہ ”گداگروں کو انتخاب کرنے کا حق نہیں ہوتا“ تو یہ بات لاکھ قومی غیرت و حمیت کے لئے تازیانہ تھی لیکن ہمیں دیکھنا چاہیے تھا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور امریکہ کہاں کھڑا ہے…… ابھی دو روز پہلے شمالی وزیرستان کی ایک تحصیل (شوال) میں امریکی ڈرون حملے میں چار سویلین مارے گئے۔ خان صاحب بھی اپنی تقاریر میں بار بار کہہ چکے تھے کہ امریکہ ہمارا جنگِ افغانستان میں اتحادی تھا (یا ہم اس کے اتحادی تھے) لیکن امریکہ نے پاکستان پر 400ڈرون حملے کئے اور پاکستان کے سینکڑوں ہزاروں سویلین اور فوجی افراد کو ان حملوں میں قتل کیا۔ لیکن کیا اس کا کوئی ردعمل امریکہ سے بھی آیا؟…… اگر نہیں آیا تھا تو اب پاکستان کس برتے پر یہ دعویٰ کر سکتا تھا کہ اب امریکہ ڈرون حملے نہیں کرے گا…… ڈرون حملے ایک نہائت بسیط موضوع ہے۔ اس پر کم از کم دو درجن کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس امریکی ڈرون حملوں کا کوئی توڑ نہیں …… ہم اپنے جرمِ ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات کی صورت میں بھگت رہے ہیں (اور آئندہ بھی بھگتتے رہیں گے)…… ذرا روس کو دیکھئے …… وہ دنیا کی دوسری سپرپاور ہے۔ اس نے امریکہ اور یورپی ممالک کی تمام افواج کو للکارا ہے کہ خبردار اگر کسی نے یوکرائن کا رخ کیا تو جوہری جنگ ہو جائے گی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کے باوجود امریکہ، یوکرائن کی مدد کر رہا ہے۔ سلاحِ جنگ اور عسکری ساز و سامان بھیج رہا ہے، کرایہ کے فوجیوں کو دونوں ممالک (روس اور امریکہ) استعمال کر رہے ہیں۔ یوکرائن کے دارالحکومت کیف کے مضافات کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی…… لیکن امریکہ باز نہیں آ رہا…… اس نے اگر پاکستان میں رجیم تبدیل کر دی ہے تو ہمارے ان دوستوں نے کیا کیا ہے جن کی دوستی ہمالہ سے اونچی اور شہد سے شیریں تھی …… روس نے کیا کیا ہے؟ کیا حقِ دوستی یہی تھا کہ عمران خان کو جھنڈی دکھا دی……؟اور ترکی کا ہم بڑا ذکر کیا کرتے رہتے ہیں۔ اردوان نے ”رجیم چینج“ پر سب سے پہلے مبارکباد دی ہے۔ (جاری ہے)